اسمبلی کیساتھ یوٹی گھٹیا اور بکواس سسٹم،جو اچھا کہہ رہے ہیں لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں:وزیر اعلیٰ
سرینگر //وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ دفعہ 370منسوخی کے بعد علیحدگی پسندی سیاست کم ہوئی۔انہوں نے یوٹی نظام میں طاقت کے دو مراکز کو گھٹیا قرار دیگر کہا کہ اس نظام کی وکالت کرنے والے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔نیوز 18 انڈیا کے خصوصی پروگرام’ ڈائمنڈ اسٹیٹس سمٹ‘ میں حصہ لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کئی اہم معاملات پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ اگر الحاق حتمی ہے تو وہ شرائط بھی حتمی ہیں جن کی وجہ سے الحاق حتمی قرار پایا۔
370منسوخی
عمر نے کہا کہ اسمبلی کیساتھ یوٹی گھٹیا اور بکواس سسٹم ہے اورجو لوگ اس نظام کو اچھا کہہ رہے ہیں وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔عمر عبداللہ سے پوچھا گیا’آپ کو کیا لگتا ہے کہ5اگست 2019میں دفعہ 370کے ہٹنے کے بعد جموں و کشمیر کے حالات سدھرے ہیں یا نہیں؟۔ اس پر وزیر اعلیٰ نے کہا’’علیحدگی پسند سیاست میں کمی آئی ہے، اس سے کون انکار کرسکتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’آپ کبھی سوچ سکتے تھے کہ میر واعظ عمر فاروق کو مرکز کی طرف سے سی آر پی ایف حفاظت کرے گی،میں تو شاید یہ سوچ نہیں سکتا تھا لیکن حالات بدل گئے،اگر علیحدگی پسند سیاست کم ہوئی ہے تو یقینی طور پر بہتری تو ہوئی نا‘‘۔
الحاق
دفعہ 370کی منسوخی کے حوالے سے اس شق کو عارضی قرار دینے کی وضاحت کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ آئین میںالحاق عارضی اور عبوری لکھا تھا،عبوری، کیونکہ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔انہوں نے پوچھایہ کیوں عارضی اور عبوری تھا؟۔ عمر نے مزید پوچھا’’کیا ہونا تھا جموں و کشمیر میں کہ یہ مستقل ہوتا، الحاق کے وقت جموں کشمیر کے لوگوں کیساتھ کیا وعدہ کیا گیا تھا؟،جس سے یہ قانون عارضی اور عبوری بن گیا تھا، وہ رائے شماری کا وعدہ تھا‘‘۔وزیر اعلیٰ نے کہاکہ جموں و کشمیر کے الحاق کی توثیق عوام کو کرنی تھی، عارضی اور عبوری کی بات توکی جاتی ہے،کیوں یہ عارضی اور عبوری تھا، یہ بات نہیں کی جاتی۔انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا’’کیونکہ ملک کے اُس حصے کے لیے آئین میں کوئی مستقل شق داخل نہیں کی جاسکی جس کی مستقل حیثیت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے‘‘۔عمر عبداللہ نے کہا’’وقت کیساتھ لوگوں نے مان لیا کہ الحاق حتمی ہے،ہم نے مان لیا تھا کہ الحاق مکمل ہوچکا ہے اورلوگوں سے توثیق کرنی کی کوئی ضرورت نہیںہے‘‘۔انکا کہنا تھا’’اسکا یہ بھی مطلب تھا کہ الحاق کا فریم ورک بھی مستقل ہے،اگر الحاق مستقل ہے، تب وہ شرائط بھی مستقل ہیں، جس نے الحاق کیلئے فریم ورک بنایا‘‘۔عمر نے کہا’’ایک عارضی نہیں ہوسکتا، اور دوسرا مستقل،یا تو دونوں مستقل ہیں یا دونوں عارضی ہیں‘‘۔وزیر اعلیٰ نے کہا’’مشکل یہ ہے کہ ایک چیز کو عارضی اور دوسری چیز کو مستقل کہا جاتا ہے، جبکہ ہم ( جموں و کشمیر ) کے لوگ دونوں کو مستقل دیکھتے تھے،ہم الحاق کو بھی مستقل اور شرائط کو بھی مستقل مانتے تھے،آپ کہتے ہیں الحاق مستقل لیکن فریم ورک عارضی، بنیادی طور پریہی سوچ میں فرق ہے‘‘۔
یوٹی نظام
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ کوئی موثر نظام نہیں ہے۔انہوں نے کہا ’’ میں مانتا ہوں کہ اس ملک میں اگر سب سے گھٹیا اور بکواس کوئی سرکاری نظام ہے، وہ یوٹی میں اسمبلی ہے،اسے ہونا نہیں چاہیے،یہ لوگوں کیساتھ دھوکہ ہے،اس ملک میںدو قسم کے سسٹم ہونے چاہیئں،یا یوٹی یا ریاست،یوٹی کو اسمبلی مت دیجئے،لداخ کی طرح، لکش دیپ، دمن دیو جگہوں کی طرح،‘‘۔انہوں نے کہا’’یہ یوٹی کیساتھ اسمبلی لوگوں کیساتھ دھوکہ ہے،یہ پانڈیچری میں لوگوں کیساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے اور جموں و کشمیر میں بھی لوگوں کیساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے،اس سے گٹھیا اور بکواس سرکاری سسٹم کوئی ہے نہیں،اگر کوئی آپ کو کہے گا کہ یہ سسٹم چلتا ہے تو جھوٹ بول رہا ہے، یہ سسٹم نہیں چلتا ہے‘‘۔عمر عبداللہ نے مزید کہا’’طاقت کا دہرانظام اگر سہی ہوتا تو، ملک میں دہرا طاقت کا نظام کیوں نہیں ہے،دو وزیر اعظم بنایئے،یا راشٹر پتی کو اختیارات دیجئے، اگر اتنا ہی اچھا یہ سسٹم ہے تو پورے ملک میں چلایئے، مہاراشٹر میں چلایئے، یوپی ،پنجاب کرناٹکا اور تامل ناڑومیں چلایئے،بہترین سسٹم اگر ہے تو سب جگہ چلنا چاہیے،اگر آپ کو کوئی یہ بات کہے کہ یہ کامیاب سسٹم ہے تو وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ، یہ کامیاب سسٹم نہیں ہے‘‘۔وزیر اعلیٰ نے کہا’’یہ نظا م ہم کیسے چلاتے ہیں ، ہم جانتے ہیں،لیکن یہ سسٹم رہنا نہیں چاہیے، میں آج بھی کہتا ہوں، میں نے اس سے پہلے بھی کہا ہے،یہ یوٹی میں اسمبلی والا سسٹم ہمیں اس ملک میں رکھنا نہیں چاہیے،اگر لوگوں نے حکومت کا انتخاب کیا ہے تو اس حکومت کو تمام اختیارات ملنے چاہییں،یہ نصف پاور نہیں ہونا چاہیے‘‘۔عمر عبداللہ نے کہا کہ سال 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی۔ آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا گیا ، اب سال 2025 ہے۔ تب کہا گیا کہ یہ ایک عبوری مرحلہ ہے، اب پانچ سال گزر چکے ہیں، اب یہاں کیا عبوری ہے، منتقلی اب ہوئی ہے، ٹھیک ہے؟ اس وقت آپ کے پاس منتقلی کا مرکزی اصول تھا، جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کو اب منتقلی کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیاکہ مرکز نے بھی کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو یقینی طور پر مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ اس پر عمر عبداللہ نے کہا کہ UT جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔