سرینگر// قومی محاذِ آزادی کے سینئر رُکن اعظم انقلابی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارتی استعماریّت، استبدادیّت اور فسطائیت کی موجودگی میں کشمیر کا ایک ایک باسی دل ہی دل میں رنج و ملال اور افسردگی میں ڈوبا رہتا ہے۔ وہ شہداء کی یاد کی وجہ سے اپنے آپ کو مہموُم اور مغموُم پاتا ہے۔ بھارتی حکمران کشمیر کی مُزاحمتی تحریک کیdynamics سمجھنے کی توفیق ہی نہیں پاتے۔انہوں نے کہاکہ مستعمرین پھر بھی روایتی استعماری حربوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیریوں کو آدابِ غلامی سکھانے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے مُزاحمتی رہنماؤں اور کارکنوں کو زینت زندان بنایا ہے۔ نئی نسل کے مثل ِ سیماب بیقرار نوجوان سیاسی گھُٹن اور حبس کے اِس ماحول میں پھر جنگلوں اور پہاڑوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کپوراہ کے جنگلوں میں جس معرکے کا منظر دیکھنے میں آیا اُس میں دہلی کے حکمرانوں کے لیے الارم نُما پیغام موجود ہے۔ 16 مارچ 2018ء کو آزاد کشمیر میں لبریشن فرنٹ نے کشمیر کیشہداء اور اسیروں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک پرُ امن ریلی کا اہتمام کیا۔ آزاد کشمیر پولیس کے سپاہی شاید یہ سمجھ گئے کہ اِس ریلی سے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ موقفِ کمزور ہوگا۔ ’’خدشات‘‘ کے خُمار نے بندوقوں اور لاٹھیوں کو اپنا نظریائی رول نبھانے کی تحریک بخشی۔ چنانچہ کئی جگر پارے زخمی ہوئے اور غیّور نعیم بٹ زخموں کی تاب نہ لا کر خالق حقیقی سے جا ملے۔غیّور نعیم بٹ کی عظمت کو سلام۔ یہ تو کشمیر کے شہداء ہی ہیں جنہوں نے کشمیر کو ایک نیو کلیر فلیش پوئنٹ بنادیا ہے۔ ِ کشمیری نہیں چاہتے کہ پورا برصغیر ایٹمی جنگ کے شعلوں میں بھسم ہوجائے۔ جنگ بندی لائن کے آرپار کے مُزاحمتی رہنماؤں پر لازم ہے کہ وہ یک زبان ہو کر بھارت اور پاکستان سے کہدیں کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ ٹھوس عملی اقدامات کئے جائیں۔ پہلی فرصت میں جنگ بندی لائن کے آرپار کے کشمیریوں کو انٹرا کشمیر مذا کرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے ایک پرُ امن حل کا نقشہ (blueprint) تیار کرنے کی دعوت دی جائے۔