وادیٔ کشمیر جہاں صنعت و حرفت کے میدان میںکافی پیچھے رہ گئی ہے، وہیں یہاں کے لوگوں کو اقتصادی اور تجارتی مسائل بھی درپیش ہیں،اور جن دوسرے گوناگوں مسائل و مشکلات کا کشمیری عوام کو ایک لمبے عرصے سے سامنا کرنا پڑرہا ہے ،اُن سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ان مسائل اور مشکلات کا اگرچہ سرکاری سطح پر بار بار ذکر کیا جاتا ہے اور ان کے ازالہ کا بھرپور یقین بھی دلایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جموں و کشمیر خصوصاً وادی ٔکشمیر کے لوگوںکی اقتصادی صورت حال روز بروز خراب ہوتی جارہی ہےاور عوام کے مشکلات و مصائب میں اضافہ در اضافہ ہونے کی وجہ سے اُن کی زندگی اجیرن بنتی جارہی ہے،جبکہ بیشتر لوگ زندگی پر لعنت و ملامت کرتے نظر آرہے ہیں۔لوگوں کی ایک خاصی تعداد زندگی سے اتنے مایوس ہوچکی ہے کہ اُن کے لئے اب اپنے کام کاج ،مزدوری ،چھوٹا موٹا کاروبار ،تجارت ،دکانداری یا کارخانہ چلانے کا توازن بھی برقرار نہیں رہا ہے۔جس کی بنیادی وجہ حکومت اور حکومتی اداروں کی جانب سے منصوبہ بند اور منظم طریقے پر اقتصادی اور تجارتی مسائل کو حل کرنے کی طرف عدم توجہی ہے۔پاور سپلائی جو دورِ حاضر میں کسی بھی ریاست کی ترقی میں بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہے،ہمارے یہاں کی بیشتر آبادی کے لئے نہ ہونے کے برابر ہے۔موسم سرما شروع ہوتے ہی ہمارےیہاں بڑے پیمانے پر بجلی کٹوتی کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی رہی سہی گھریلو دستکاریاں اور چھوٹی صنعتیں شدید بحران کا شکار ہوجاتی ہیں۔بغور جائزہ لیا جائے تو وادیٔ کشمیر میں کوئی بڑا کارخانہ یا کوئی ایسی بڑی فیکٹری نہیں ،جس میں بڑے پیمانے پر تیار کیا جاناوالا مال برآمد کرکے یہاں کی آمدن میں اضافہ کا باعث بن سکے۔کسی زمانے میں یہاں ایک صنعتی ریشم کارخانہ (سِلک فیکٹری) ہوا کرتی تھی، جو ازل سے ہی روبۂ زوال رہی،اس کی وجہ بھی یہی رہی کہ اس کارخانہ کی طرف وہ توجہ نہ دی گئی جس کا وہ مستحق تھا۔حالانکہ وہ وقت بھی تھا،جب یہاں کے ریشم کی معیاری سمجھا جاتا تھا اور بیرونِ ریاست اس کی کافی مانگ بھی رہتی تھی اور یہاں کے لوگوں کے لئے آمدنی کا ایک ذریعہ بھی بنتی تھی۔اب جو چھوٹی چھوٹی صنعتیں اور گھریلو دستکاریاں وادی کی آمدن کا ذریعہ تھیں ،وہ عرصہ دراز سے پاور سپلائی کی عدم دستیابی یا بڑے پیمانے پر کٹوتی کی شکار ہوگئیں،اسی طرح تاجروں کے مسائل بھی حل کرنے کے لئے ٹھوس کوششیں نہیں ہوئیں،اُن کو آج بھی باہر سے ہی مال منگوانے اور ہمچو قسم کے دوسرے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عوام کی مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے کساد بازاری کا عالم بھی تاجروں کے لئے پریشان کا باعث بنا ہوا ہے۔اس پر ستم یہ کہ افسر شاہی نے قیمتوں کے مسئلے کو بہت زیادہ اُلجھا کر رکھدیا ہےاور یہاں پر تقریباً ہر چیز کے لئے حد سے زیادہ منافع کی شرح مقرر کی گئی ہے،جو کہ سراسر ناانصافی ہی قرار دی جاسکتی ہے۔حکومت ٹھوس بنیادوں پر اس مسئلے کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کرتی نظر آرہی ہے،اس لئے اس قسم کے مسائل حل کرنے میں اُس کو اپنی مصلحتیں بھی آڑے آتی ہیں،اور پھر ہر غلط کام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انجیل کی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔چنانچہ حد سے زیادہ مہنگائی اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے لئے ہمیشہ بہانے تراشے جاتے رہے ہیں کہ یہاں ہر چیز چونکہ باہر سے درآمد کی جاتی ہے ،لہٰذا یہاں کی حکومت کے لئے ان چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔حالانکہ اسے ایک مفرضہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے جس کو مصلحتوں کے تحت بنایا جاتا ہے۔ورنہ قیمتوں پر کنٹرول میں رکھنا حکومت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا ہےجبکہ حقیقت تو یہ ہے حکومتی متعلقہ ادارے کے زیادہ تر افسر اور اہلکار جان بوجھ کر قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے کوئی دلچسپی نہیں لیتے،ورنہ اضافی آمدن جو سرکار سے حاصل ہونے والی تنخواہوں سے دوگنی اور تگنی ہوتی ہے ،کو وہ کسی صورت میں چھوڑنے پر تیار نہیں جو اُنہیں حد سے زیادہ منافع کرنے والے ناجائز منافع خورتاجروں ،دکانداروں اور چھاپڑی فروشوں سے حاصل ہورہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوام کو درپیش ان مسائل کو حل کرانے کے لئے اعلیٰ سطح پر سوچ بچار کرے اور ایسی کاروائیاں عمل میں لائیں جو عام لوگوں کے لئے سود مند ثبت ہوسکیں۔