شعر گوئی علامہ اقبالؒ نے کم سنی ہی میں شروع کردی تھی اورابتداء ہی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک بلند پایہ فلسفی شاعر بنیں گے۔ اقبالؒ کی ابتدائی تحریروں میں جہاںحُبِ وطن کا جذبہ پیوست ہے ،وہیں انسانیت کامل کی تبلیغ بھی ہے اور اس انسان کامل کو اسلام کاشاہین کہہ دیا ہے ۔ عام طور پر ہمارے اندر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ اقبالؒ نے اسلام کی پیغام رسانی کو ہی اپنے شعروکالم کا محور بنایا ہے۔صحیح یہ ہے کہ انہوں نے اسلام چونکہ انسانیت کا دوسرا نام ہے،اس لئے انہوں نے انسان دوستی کی پیامبری کی ہے۔جو کوئی مفکورہ یا نظریہ انسانیت کو مطمح نظر قرار دے تووہ بھی اسلام کا ہی خوشہ چین کہلائے گا۔اگر اس نقطہ نظر کو مدنظر رکھ کر اقبالؒ کا مطالعہ کیا جائے تو بہت ساری غلط فہمیاں اور کج بینیاں دور ہوجائیں گی۔اقبالؒ نے اپنے کلام میں اخوت،بھائی چارے اور جذبہ انسانیت کا اظہار یوں کیا ہے ؎
سو تدبیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر
چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر
دد مطلب ہے اخوت کی صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر
اقبالؒ کے اندر حبِ وطن کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھاجس کی نمائندگی اُن کا ابتدائی کلام کرتاہے۔ان کی پہلی مطبوعہ نظم جو مخزن میں شائع ہوئی تھی’’ہمالہ‘‘ ہے ۔الغرض علامہ اقبالؒ کی دور اوّل کی نظمیں وطن کے جذبے سے معمور ہیں۔اپنی شیرین بیانی اور جوشیلے انداز بیاں کی بدولت ابتدا ء ہی سے ہندوستانیوں کے دلوں کو گرمائے رکھا اور مقبولیت کا یہ حال ہے کہ برصغیر ہند و پاک کے ہر فرد کی زبان پر اُن کے کچھ نہ کچھ اشعار ضرور ہیں۔ ایک طرف جہاں اُنہوں نے وطن کی عظمت کے خوب گُن گائے ہیں ،وہیں دوسری طرف یہاں کے پہاڑوں،دریائوں اور دیوتائوں ،سب کو سراہا۔ہمالہ پہاڑ کی عظمت اپنی نظم’’ہمالہ‘‘ میں یوں بیان کرتے ہیں ؎
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کرآسماں
اسی نظم میں ایک جگہ یوں فرمایا ہے ؎
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہ ِمہر عالم تاب پر
یہ ایک لمبی نظم ہے ۔ اس نظم کی عظمت کا اعتراف سر عبد القادر یوں کرتے ہیں:
’’ شیخ محمد اقبالؒ نے ایک جلسہ میںاپنی وہ نظم جس میں کوہ ہمالہ سے خطاب ہے پڑھ کر سنائی۔
اس میں انگریزی خیالات اور فارسی بندشیں۔اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود ہے۔‘‘
اقبال ؒ کی محبت صرف وطن اور ہم وطنوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہ وطن کی اُس تہذیب کے بھی دلدادہ تھے جس نے تمام اقوام میں ہند کو فوقیت بخشی تھی۔اپنے عمیق مطالعے کی بدولت وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ دنیا میں کئی بے مثال تہذیبیں وقوع پذیر ہوئیںجن میں اولیت کا شرف مصر کی تہذیب کو حاصل ہے۔یہ دنیا کی سب سے قدیم ترین تہذیب ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی قابلِ ذکر تہذیبیں اقوام عالم میں جلوہ گر ہوئیں ۔ ان قدیم تہذیبوں کے علمبرداروں نے اپنے وقت میں مادی ترقی کو اپنے عروج تک پہنچایا۔مگر آخر کار یہ تہذیبیں فنا ہوکر تاریخ کے اوراق پارینہ میں دب گئیں۔
دوسری طرف ہندوستانی تہذیب جو اُن تہذیبوں کے ہم پلہ تھی باوجود امتدادِ زمانہ اپنی قدیم شان و شوکت کے رواں دواں ہے۔اس زندگی وحرارت کی وجہ ہماری تہذیب کی روحانی اقدار اور وہ ہمہ گیری ہے جس نے ہر نئے آنے والے کا خلوص دل سے استقبال کیا۔اُن کی اچھائیوں کواپنے سماج میں ضم کرکے اپنے تہذیبی اقدار کو وسعت دی۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارا وطن ابتدا ء ہی سے بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ بنارہالیکن ہماری تہذیب سے متاثر ہوکر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔یہاں کی ہر چیز کی حفاظت اپنا اولین فرض سمجھنے لگے اوریہاں کی ترقی میں دل وجاں سے مدد کی۔اس حقیقت کا اظہار ڈاکٹر اقبال ؒ نے ’’ترانہ ہندی‘‘میں مدلل انداز میں یوں کیاہے ؎
یونان ومصر وروماسب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام ونشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
اقبالؒ اپنے وطن کے جذبہ عشق ، روحانی اقداراورتہذیبی ہمہ گیری کا اظہار اپنے کلام میں کچھ اس طرح کرتے ہیں ؎
چشتی نے جس زمیں میںپیغامِ حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت ِعرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے ،میرا وطن وہی ہے
سفرِ یورپ کے دوران اگرچہ اقبالؒ کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وطنی جذبہ میں کمی پیدا ہوئی تھی۔مگر اس کا بھر پور جواب انہوں نے انگلینڈ میں ہی ایک نظم لکھ کر دیا۔اس شعر سے اس کی رہنمائی ہوتی ہے ؎
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
اقبالؒ نے جا بجا اپنی شاعری میں وطن کی عقیدت اور مٹی کی محبت کا اظہار کیاہے۔نظم ’’نیا شوالا ‘‘ میں وطن عزیز کی مٹی اور پاکیزہ خیالات کی ان الفاظ میں عزت افزائی کی ہے:
پتھر کی مورتوں میںسمجھاہے تو خداہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
اور آخری شعر ہے ؎
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوںکی مکتی پریت میں ہے
اقبال ؒ کی محبت صرف وطن تک ہی محدود نہیںتھی بلکہ وطن کے ہر اُس فرد سے بھی بے لوث محبت کرتے تھے جنہوں نے ا،س وطن میں جنم لیا تھا۔اپنی ایک نظم ’’رام‘‘ میں محبِ وطن شاعر اپنے جذبات کا کیونکر اظہار کرتاہے ؎
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ِہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوشِ محبت میں فرد تھا
اقبالؒ نے گرونانک کے جناب میں بھی اپنی نذر ِعقیدت پیش کی ہے۔اگرچہ نظم’’نانک‘‘کے نام سے شائع ہوئی لیکن اس میں شاعر نے گوتم بدھ کی عظمت کی طرف بھی اشارہ کیاہے۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
قوم نے پیغام گوتم کی ذراپروانہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
اس طرح اقبال ؒ کے کلام میںجابجا وطن کی محبت کا اظہارملتا ہے، جس کو تفصیلاً بیان کرنا یہاں ممکن نہیں ۔اب میں اپنا جذبہ دل شاعر کے اک شعر میںاداکرتے ہوئے اپنے مضمون کو ختم کرتاہوں ؎
وہی جواں ہے قبیلہ کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیران غارب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تا تاری
رابطہ :میکنیکل انجینئر،کالیج آف انجینئرنگ پنجاب
فون7814293432