مترجم۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر جاوید اقبال
جی ای سی ویکفیلڈ کی بہ حیثیت وزیر اعظم برخواستگی اور اُن کی جگہ ہری کشن کول کی تعیناتی کے بعد (جو 13 جولائی 1931 ء کو سنٹرل جیل سرینگر کے دلدوز واقعات کے بعد انجام پائی) لاہور کے ایک وکیل امر ناتھ چونا نے اُس وقت حال حال ہی وزیر بنا ئے گئے میرزا ظفر علی خان کے نام ایک مکتوب میں یہ انکشاف کیا تھا کہ سر محمد اقبال کشمیر گورنمنٹ میں منسٹر بننا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لئے اُنہوں نے پنجاب کے گورنر سے سفارش کرنے کو کہا ہے۔ میرزا لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابقہ جج تھے ،اُن کا انتخاب بہ حیثیت وزیر داخلہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اس لئے کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے تئیں اُن کی اس خواہش کا اظہار ہو کہ وہ اُن کے جائز مطالبات ماننے کیلئے تیار ہیںکیونکہ مسلمانوں میں عدم اطمینانی اور اضطراب کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ چارصفحات پہ مشتمل ایڈوکیٹ چونا کا رقم شدہ خط جو راقم الحروف کو دستیاب ہوا، اس کے آغاز میںاُس کرم فرمائی کے لئے اظہار تشکرسے ہوتا ہے جس کا اظہار میرزا بہ حیثیت جج اُن کے تئیں روا رکھتے تھے اور اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اُن کو اپنی اُس گفتگو کے متن سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں جو کہ گورنر سر جوفری ڈی مونٹو مورنسی سے ہوئی۔ بغیر تاریخ کے رقم مذکورہ خط کا ماخذ ایڈورڑز روڑ لاہور ہے اور اس میں اُس ملاقات کا ذکر ہے جو کہ کل کے دن چونا کی گورنر کے ساتھ گورنمنٹ گیسٹ ہاوس میں انجام پائی۔میرزا کو مطلع کیا جا رہا ہے کہ ملاقات کشمیر سے متعلق تھی جو ’’آپ کے لئے باعث دلچسپی ہو گی اور آپ کو اُن وجوہات سے با خبر رکھے گی اورجس کے سبب ’’مسلم آوٹ لک‘‘ اور دوسرے اشخاص جو کہ ریاست کشمیر کے خلاف ایجی ٹیشن کی تہہ میں ہیں، آپ کی ہز ہائنس مہاراجہ کی گورنمنٹ آف کشمیر اینڈ جموں میں بہ حیثیت وزیر تعیناتی کے شدید مخالف ہیں‘‘ (قارئین کے لئے اطلاعاً عرض ہے کہ ’’مسلم آوٹ لُک‘‘ اُس جریدے کا عنواں تھا جو کہ مسلمانانِ کشمیر کے اُن سیاسی حقوق کا حامی تھا جس کیلئے کشمیر میں 1931 ء کی ایجی ٹیشن ہو رہی تھی)۔اِس بیان کے بعد کہ گورنر اور چونا کے مابین ملاقات میں کیا کچھ ظاہر ہوا ، اس حوالے سے چونا نے ایک بم گرا دیا ۔اُن کا یہ دعویٰ ہے کہ گورنر ڈی مونٹو مورنسی نے اُن سے یہ کہا کہ علامہ اقبال اُن کے پاس کشمیر میں منسٹر شپ کے لئے آئے تھے ۔چونا کہتا ہے کہ ’’ہز ایکسلنسی نے مجھ سے کہا کہ علامہ اقبال اُن کے پاس سفارش کی غرض سے آئے تھے تاکہ ریاست کشمیر میں بہ حیثیت وزیر اُن کا تقرر ہو سکے لیکن اس خواہش کی تکمیل سے جب وہ مایوس ہوئے تو ایجی ٹیشن میں سر فہرست رہے‘‘۔ایڈوکیٹ چونا کا یہ کہنا کوئی انفرادی واقعہ نہیں تھا بلکہ جب علامہ اقبال پہ یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ کشمیر ایجی ٹیشن کی فکری رہنمائی کر رہے ہیںاور پنجابی مطبوعات کے ایک حصہ میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اُن کی نظر کشمیر میں منسٹرشپ حاصل کرنے پہ ٹکی ہوئی ہے۔ایک اخبار نے تو یہ خبر شائع کی کہ وہ کشمیر کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ایک اور اخبار میں اُن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ خبر آئی کہ برٹش انڈیاکے ایک نمایاں لیڈر نے کشمیر گورنمنٹ میں پوسٹ کی حصولی کے لئے درخواست دی ہے۔
کشمیر جو کہ اقبال کے آبا ء و اجداد کا وطن تھا، زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور باشندگانِ کشمیر تعصب و بے انصافی کے پاؤں تلے روندے جا رہے تھے ۔اُن کے جنم سے اکتیس سال پہلے جموں کے ایک راجپوت ہندو خاندان نے انتہائی ابتر حالات میں طاقت حاصل کی تھی جب کہ 1846ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کو بے دخل کر کے کشمیر گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ ڈالا۔کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی عزت و وقار سے محروم ٹیکسوں کے بوجھ تلے اپنی محنت و پسینے کی کمائی کی آخری پائی تک سے سرکاری خزانے بھر رہی تھی ۔ اقبال کا دل کشمیر اور ااور اُس کے بکھرے ہوئے لوگوں کیلئے دھڑکتا تھا اور اُن کے جذبات کا ترجمان اُن کی شاعری بنی ؎
توڑ اُس دست جفا کش کو یارب جس نے
روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا
اقبال نے بارگاہ ایزدی میں آہ وزاری کی اور اپنے آپ کو لوگوں کی بدحالی اور اُن کے بشری اور اقتصادی حقوق کی تشہیر میں مشغول رکھا۔ وہ ’’کشمیر کمیٹی ‘‘کے روح و رواں رہے اور میٹنگوں ،جلوسوں اور اپنی شاعری کے وسیلے سے کشمیر کے بارے میں عوامی آگہی بڑھاتے رہے۔کشمیر میں لوگ سرحدوں کی قید و بند سے آزاد دیگر مسلمانوں کی مانند اُن کی شاعری کے شیدائی تھے لیکن اس کے علاوہ کشمیر کے ضمن میں اُن کا تحرک اُن کے تئیں احترام و محبوبیت کا سبب بنا اور یہ احترام و محبوبیت ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتارہا ۔ بہر کیف اقبال کے تئیں لوگوں کے والہانہ جذبات نے کشمیر کے حاکموں اور اُن کے گماشتوں کو اُن کا دشمن بنایا۔ اُن کی تنقید ہوتی رہی ،اُنہیں بدنام کیا گیا اور اُن کی آمد کشمیر پر پابندی لگائی گئی۔علامہ اقبال کی آواز برطانوی ہند میں مسلمانوں کی سب سے موثر آواز تھی۔اُن کی بات میں وزن تھا۔ظلم کے حامی اُن کو کشمیر کے ہندو راجہ کے تاج و تخت کے لئے خطرہ سمجھتے تھے ۔ پنجابی میڈیا میں اُن کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا گیا۔ اُن پہ الزامات لگائے گئے کہ وہ کشمیری مسلمانوں کو اُکسا رہے ہیں اور ڈوگرہ راج کے خلاف بے اطمینانی پھیلا رہے ہیں ۔ کشمیر کے ضمن میں اُن کے موقف اوراُن کی ترجمانی کو اُن کی ذاتی غرض سے تعبیر دی گئی۔ وہ اخبار جنہیں ظالم کا ساتھ دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی، اُن کی شبیہ بگاڑنے میں بے سروپا کہانیاں گھڑتے رہے۔اُن پہ یہ الزام لگا یا گیا کہ وہ مہاراجہ ہری سنگھ کی بر طرفی کی سازش رچا رہے ہیں۔ایک کشمیری جرنلسٹ گاش لال کول نے اس من گھڑت کہانی کی وسیع پیمانہ پر تشہیر کی کہ مہاراجہ کو گرانے کیلئے اقبال لوگوں کو اُکسا رہے ہیں۔مذکور کا یہ بے بنیاد دعویٰ تھا کہ وہ اقبال کے گھر میں منعقدہ ایک میٹنگ میں موجود تھے جہاں کشمیر کی مہاراجی سرکار کو گرانے کیلئے کئی تجویزیں زیر بحث آئیں۔ لاہور کے ایک اخبار نے اپنے ایک خصوصی شمارے میں مذکورہ میٹنگ کی وسیع تشہیر کی اور اقبال منزل کو سازش کا گہوارا قرار دیا۔ کول جی نے اقبال کو کشمیر میںبغاوت کی حد تک بد امنی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔اس کا یہ دعویٰ تھا کہ اُسے اقبال کے گھر ایڈیٹر ’’انقلاب ‘‘عبدالمجید سالک ؔلے گئے جب کہ عبدالمجید سالک نے مذکورہ میٹنگ کے بارے میں کول کے ا دعا کو بے ایمانی اور انتہائی درجے کی شرارت سے تعبیرکر کے اسے بالکل جھوٹ اور فریب قرار دیا۔
اُس زمانے میں کشمیر میں مقامی میڈیا کا وجود سرے سے تھا ہی نہیں۔ اس لئے جو کچھ بھی کشمیر میں ہو رہا تھا، وہ پنجاب کے اخباروں میں منعکس ہوتا تھا ۔ یہ اخبارات دو متوازی خیموںہندو پریس اور مسلم پریس میں بٹے ہوئے تھے، جہاں اول الذکرکشمیر سرکار کا حامی تھا ، وہیں آخرالذکرظلم کے مارے مظلومین کا ساتھ دے رہا تھا۔کشمیرکی مسلم اکثریت کا جہاں ہندواقلیت کے برابر بشری و اقتصادی حقوق مانگنے کے جرم میں لعن طن ہو رہی تھی، وہیں ہندو پریس مسلم اکثریت کے رہبروں اور اندر ون و بیرون ریاست میںا ن کی حمایت کرنے والوں کی بھی ملامت کر رہا تھا۔ اسی پس منظر میں اقبال بد گمانیوں اور افواہوں کا شکار اور بدف بنائے گئے ۔اخبار’’ کیسری ‘‘نے اُن پہ یہ الزام لگایا کہ وہ سیاسی ارادے رکھتے ہیں اور کشمیر کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔اُن پہ یہ الزام لگا کہ چونکہ وہ کشمیر سرکار کے وزیر نہیں بنائے گئے، لہٰذا وہ مہاراجی سرکار کے خلاف منافرت پھیلا رہے ہیں اور کشمیری مسلمانوں کو ہندو راجہ کے خلاف اُکسا رہے ہیں ۔اخبار ’’ٹریبون ‘‘ نے یہ سلسلہ آگے بڑھایا۔ 26 ؍اگست1931ء کو اس کثیر الاشاعت اخبار میں جی ایس راگھون کا ایک مقالہ چھپا جس میں کوئی نام لئے بغیر مقالہ نگار نے تحریر کیا کہ کچھ شخصیات کے مقاصد اس سے واضح ہو جارتے ہیں کہ کشمیر ایجی ٹیشن کے دوران برطانوی ہند کے ایک معتبر لیڈر نے کشمیر گورنمنٹ میں ایک مخصوص پوسٹ کیلئے درخواست دی تھی۔ چونکہ یہ مقالہ اخبار’’ کیسری‘‘ میں چھپی رپورٹ کے در پے منظر عام پہ آیا اس بارے میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ اس کا اشارہ کس جانب تھا ۔راگھون اُن جرنلسٹوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کشمیر ایجی ٹیشن کے پس پردہ کارفرما ظالم کا ساتھ دینے اور مظلوموں کی تذلیل کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا ہوا تھا۔ وہ کچھ وقت کیلئے سرینگر میں بھی رہے اور وہاں سے اپنی رپورٹیں بھیجتے رہے جس پر پنجاب میں اُن کے ہم پیشہ دیگر جرنلسٹوں نے یہ سوال اٹھایا کہ وہ کس کی دعوت پہ کشمیر آئے تھے؟
14 ؍اگست 1931ء کو لاہور کے ایک بڑے مجمع میںجو اقبال کی صدارت میں کشمیریوں کی حمایت میں بلایا گیا تھا اورجہاں 50,000لوگ شریک تھے، سید محسن حسن شاہ نے اُن جھوٹی افواہوں کی جانب اشارہ کیا جو ہندو اخبار اُن مسلمان لیڈروں کے خلاف پھیلا رہے تھے جو مظلوم ومقہور کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے خصوصاََ اخبار’’ کیسری ‘‘کی جانب اشارہ کیا جس کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاں اقبال کشمیر میں وزارتِ عظمٰی کے طلب گار رہے، وہیں سید محسن حسن شاہ جج بننے کے چکر میں ہیں۔ اپنے خطاب میں اقبال نے اپنے خلاف ان اوچھے الزامات کی دھجیاں بکھیر دیں اور یہ کہا کہ ’’میں ایسے جابر حاکم کی وزارت پہ لعنت کرتا ہوں‘‘ ! بعد میں جب سالک نے اقبال سے یہ پوچھا کہ وہ کونسا مسلمان لیڈر ہے جس کی جانب راگھون نے اشارہ کیا ہے کہ اُس نے کشمیر سرکار میں ایک پوسٹ کیلئے درخواست دی ہے تو اقبال نے جواب دیا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مضمون نگار کے پیش نظر کون شخص تھا لیکن چونکہ ایک ہندو روزنامے نے پہلے ہی میرا نام لیا تھا ،لہٰذا کوئی راگھون کی من گھڑت تحریر سے بد گمان نہ ہو ، میں اس افواہ کی سخت الفاظ میں تردید کرتا ہوں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر یوں کی حمایت میں بلائے گئے عوامی جلسے میں پہلے ہی اس منسٹری کی افواہ پر نفریں کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے سالک سے کہا’’میں نے منسٹری سے بھی بڑی کسی پوزیشن کے لئے درخواست نہیں دی ہے ۔میں کشمیر کمیٹی کا ممبر ہوں جو کشمیر کی انتظامیہ میں سدھار کی متمنی ہے۔اس کمیٹی کا ممبر ہونے کے ناطے میں ایسے کسی بھی اقدام کو بے ایمانی اور اعتماد شکنی مانتا ہوں ‘‘ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقبال نے جب سر عام ان الزامات کی تردید کی، تو کوئی بھی اپنی بات ثابت کرنے کیلئے کسی ثبوت کے ساتھ سامنے نہیں آیا۔
ایڈوکیٹ امر ناتھ چونا کا ظفر علی خان کا خط اُس مذموم تحریک کا پرتو لگتا ہے جو کہ اقبال کے خلاف جاری تھی۔اس خط کا متن اُن کا اردوں کا ضامن ہے۔اِس خط میں ایڈوکیٹ کا جھکاؤ کشمیر کی مہاراجی سرکار کی جانب نمایاں ہے۔پنجاب کے گورنر کے ساتھ اپنے تعلقات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں کہ اُنہوں نے گورنر کے ساتھ ملاقات میں یہ اعادہ کیا کہ’’ برطانوی سرکار کو کشمیر ایجی ٹیشن کی کھلے عام مذمت کرنی چاہیے چونکہ یہ انگریز شاہی کے ایک اتحادی کے خلاف غیر دوستانہ تحریک ہے‘‘۔وہ آگے ر قم طراز ہیں’’میں نے ہز ایکسلنسی کی توجہ 14؍اگست کے اُن شدید خطابات کی طرف دلوائی جو کہ کچھ نام نہاد ذمہ وار اشخاص نے ہز ہائنس مہاراجہ (ہری سنگھ )کی ذات کے خلاف کیں اور یہ تجویز پیش کی کہ پرنسز پروٹکشن ایکٹ کے تحت سرکار کارروائی کرے۔ میں نے ہز ایکسلنسی سے کہا کہ اگر جتھوں کی تشکیل کی اجازت دی دی گئی اور وہ برطانوی سرکار کی حدود سے داخل ہو جائیں تو وہ برطانوی سرکار کی جانب سے (کشمیر)سٹیٹ کے تئیں غیر دوستانہ اقدام ہو گاجس کے مضمرات سنگین ہوں گے اور مسائل پیچیدہ ہو جائیں گے‘‘یہ بات قابل ذکر ہے13؍جولائی کے واقعات اور کشمیری عوام کے خلاف سخت اقدامات کے بعداحرار پارٹی کے رضاکار جموں کے راستے سے ریاستی حدود میں داخل ہونے لگے تھے تاکہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکیں۔چونا نے میرزا ظفر علی خان کو اپنے خط میں مطلع کیا کہ گورنر نے اُن سے یہ کہا کہ اُنہوں نے امرتسر میں کچھ مہذب مسلمانوں سے یہ سوال کیا کہ اُنہیں کیسا لگے گا اگر مرہٹے نظام آف حیدر آباد کے خلاف ایجی ٹیشن کریں۔چونا نے مزید یہ لکھا کہ گورنر نے کہا کہ اقبال اور دوسرے حضرات نے جو تقاریر کیں وہ پُر تشدد تھیں۔
:Feedback on: [email protected]
(بقیہ سوموار کے شمارے میں ملاحظ فرمائیں)