کیاگورنر سر جوفری ڈی مونٹو مورنسی نے چونا سے یہ کہا کہ علامہ اقبال نے عہدۂ وزارات کے لئے اُن کی سفارش چاہی تھی ؟ ہمارے پاس ایسی کوئی شہادت نہیں کہ انہوں نے ایسا کہالیکن ایڈوکیٹ چونا نے اپنے خط میں یہ لکھتے ہوئے خود سوالیہ لگا دیا ہے کہ اُن کی دی ہوئی اطلاعات کا استعمال کیا جا سکتاہے لیکن یہ بات یقینی بنائی جائے کہ کہیں بھی اُن کا نام نہیں آنا چاہیے:’’آپ میری فراہم کردہ اطلاعات کا استعمال کر سکتے ہیںلیکن میں نہیں چاہتا کہ عوام میں میرا نام آئے۔ جو کچھ میں نے کہا ہے آپ یقیناََ ہز ہائنس مہاراجہ اور وزیر اعظم ہری کشن کول کو مطلع کر سکتے ہیں‘‘۔چونا اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’آپ ہز ہائینس کی گورنمنٹ کی خدمت بھی ایسے ہی کریں گے جیسے آپ لاہور ہائی کورٹ کی کر چکے ہیں‘‘۔اپنے خط کے اختتام میں وہ میرزا کو مطلع کرتے ہیں کہ وہ شملہ ’’نجی بزنس‘‘ کیلئے جا رہے ہیں لیکن وہ فرصت کو غنیمت سمجھ کر پنجاب گورنمنٹ اور گورنمنٹ آف انڈیاکے اکابرین سے ملیں گے تاکہ’’کشمیر سرکار پہ لگائے ہوئے الزامات کو مٹی میں ملا دیںکیونکہ اس کے برے اثرات سارے ہندوستان پر پڑ سکتے ہیں‘‘۔ ایڈوکیٹ چونا اپنے خط میں سر شادی لال( جو 1920 ء سے 1934ء تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے) کا ذکر چھیڑ کر لکھتے ہیں :’’یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ سر شادی لال کی صورت میں ایک قابل شخص آپ کا چیف جسٹس تھا جس کے ساتھ آپ نے دیانت داری سے کام کیا اور راجہ ہری کشن کول کی صورت میں ایک موثر منتظم آپ کے ساتھ ہے اور مجھے اَس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک کریں گے اور آپ اُن کے ساتھ ایسی ہی ہم کاری کریں گے جس کا مظاہرہ آپ نے لاہور ہائی کورٹ میں کیا‘‘۔جس گرمجوشی سے ایڈوکیٹ چونا نے سر شادی لال اور ہری کشن کول کا ذکرکیا ہے اُس سے قارئین کو اندازہ ہو گا کہ اقبال اور کشمیر کے بارے میں اُن کے خیالات کی نہج کیا ہے۔ جسٹس شادی لال کا رویہ اقبال کے تئیں قابل ملا حظہ ہے۔ 1925ء میں اُس نے بیرسٹر اقبال کو لاہور ہائی کورٹ کے جج بننے سے روکنے کے لئے ایک گندی چال چلی جس کا ذکر بعدازاں ’’بابو جی‘‘ سے کیا جو اُن کے دوست اور وید مہتہ کے والد تھے۔ اُنہوں نے بابو جی سے کہا کہ کس طرح میں نے دو پنجابی مسلمانوں اقبال اور خان بہادر شاہنواز کا پتہ صاف کیا جو مسلم جج کی خالی نشست کیلئے گورنر کی نظر میں تھے۔جب بابو جی نے اُن سے کہا کہ اُنہوں نے ایک سنگین غلطی کی ہے چونکہ ’’دونوں ہی نامی گرامی مسلم ہیں اور تعلیمی طور پہ مناسب بھی‘‘ توشادی لال نے تند وتیز زبان میں جواب دیا’’اقبال اور شاہنواز کو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے دیں، پنجابی مسلمانوں کیلئے یہی مناسب ہے‘‘یہ دوسری بات ہے کہ اقبال اور شاہنواز ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے اور یہ دوستی 1938ء تک رہی جب اقبال اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔اقبال کے فرزند اور اُن کی سوانح کے محرر جاوید اقبال ’’زندہ رُود‘‘ میں ر قم طراز ہیں کہ’’دونوں نے سر شادی لال کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا‘‘۔جاوید اقبال کا یہ بھی کہنا ہے کہ سر شادی لال نے اقبال کے لئے خان بہادر کے خطاب کی سفارش کرنے کی پیش کش کی جسے اقبال نے ٹھکرا دیا :مجھے کسی خطاب کی کوئی خواہش نہیں،مہربانی کر کے یہ تکلیف نہ کریں‘‘۔جاویدلاہور ہائی کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس کا شما راُن’’ متعصب ہندوؤں میں کرتے ہیں جن کو کسی قابل و معروف مسلمان کی ترقی دیکھی نہیں جاتی تھی‘‘۔وہ ظاہراََ اقبال کے تعریف کرنے والوں میں سے تھے لیکن ’’انگریز افسروں کے کان میں اُن کے خلاف زہر گھولنے سے نہیں چوکتے تھے‘‘۔
جہاں تک ایڈوکیٹ چونا کی وزیر اعظم ہری کشن کول کے بارے میں خوش فہمی کا تعلق ہے کہ ’’وہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک کریں گے‘‘ وہ حقیقت میں کوٹلیا اور میکاؤلی کی ساری خصلتوں کا مجموعہ تھا۔ اُس کی طاقت،دباؤاور سازشیں کسی کام نہیں آئیں، نہ ہی اُس کی وہ دھمکی کام آئی جو اُس نے کشمیری لیڈرشپ کو یہ کہتے ہوئے دی:’’تم نہیں جانتے میں کون ہوں ،میں تمہاری مسجدوں پہ قفل چڑھاؤں گااور تمہاری عبادت و روزے کی آزادی چھین لوں گا۔میں نے اکالی سکھوں کی زندگی ننکانہ میں جہنم بنا لی ہے۔وہ میرے خوف سے کانپتے تھے‘‘۔ ایک سال کی اندر اندر وہ مٹی چاٹ گیااور مہاراجہ ہری سنگھ نے اُس کے بجائے کرنل ایی جی ڈی کولون کو مقرر کیا۔ ایڈوکیٹ چونا کے خط کی جانب واپس لوٹتے ہوئے یہ امر قابل مشاہدہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ اُن کی فراہم کردہ اطلاعات سے مہاراجہ ہری سنگھ اور وزیر اعظم کو با خبر رکھیںلیکن اِس احتیاط کے ساتھ کی اُن کا نام بیچ میں نہ آئے جب کہ اُن کا نام پتہ لگنے کی صورت میں وہ مہاراجہ کو عزیز ہو جاتے، بدیں وجہ کہ کوئی اُن کا ایسا چہیتا حمایتی ہے جو مشکل حالات میں اُن کے کام آیا۔وہ عزیز بھی ہوتے اور اُنہیں دنیاوی انعامات سے نوازا بھی جاتا۔ثانیاََ سر شادی لال کے ہوتے ہوئے اُن کا نام افشاء ہونے سے اقبال اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ ایسے میں وہ کس چیز سے خوفزدہ تھے؟ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ کہ ایڈوکیٹ چونا نہیں چاہتے تھے کہ گورنر سر جوفری ڈی مونٹو مورنسی کو اُس بات کی بھنک بھی لگے جو چونا نے اُن سے منسوب کر لی تھی۔ (ختم شد)
Feedback on: [email protected]