عاقب شاہین۔ دوحہ قطر
علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں جو معرکتہ الآرا تصورات پیش کئے، ان میں مرد مومن کو بھی ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ہم اس بات سے واقفیت رکھتے ہیں کہ اقبال نے جو تصور ’’مرد مومن‘‘ دیا، وہ قرآن و حدیث سے اخذ کیا گیا ہے ۔فکر اقبال بنیادی طور پر تین عناصر پر مشتمل ہے۔یعنی فکر اقبال کا ماخذ قرآن مجید ،حدیث رسولؐ ،اور مثنوی رومیؒ ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ علامہ نے ابن مسکویہ اور عبد الکریم الجیلی جیسے مفکرین سے استفادہ کیا ہے ،اور کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ علامہ نے مغربی فلسفی نٹشے کے فوق البشر (Superman) سے نقل کیا ۔
علامہ اقبال نے ’’مردِ مومن‘‘ کی تعریف اپنی شاہکار نظموں میں سے ایک نظم ’’طلوع اسلام‘‘یہ نظم ان کی تالیف بانگ درہ میں ہے۔مرد مومن کو علامہ نے مختلف ناموں سے پکارا ،بندہ مومن ،انسان کامل ،بندہ آفاقی ،مرد درویش ،مرد خدا جیسے اور بھی نام شامل ہیں ۔نگاہ مرد مومن سے مراد بہادری ، قوت ارادوں کی پختگی، جذبہ ایمانی، مومنانہ کردار ،وغیرہ وغیرہ ۔
انسان کا تصور صرف مابعد الطبیعیاتی دنیا تک محدود نہیں رہ سکتا۔ ٹرسٹی کا کردار زمین پر انسان کو تفویض کیا گیا ہے، ‘اسے ایک آزاد شخصیت عطا کی گئی ہے۔ جوابدہی کا تصور اسے اپنی تقدیر کی تشکیل میں اپنے طریقے کو سمجھنے کا آزادانہ انتخاب فراہم کرتا ہے۔ وہ تخلیقی صلاحیتوں کے ہمیشہ چلنے والے پہیے میں مکمل طور پر غائب نہیں ہوتا ہے۔
اقبال ؒنے مشرق و مغرب کے متعدد ذرائع سے خود کو روشناس کرایا۔ لہٰذا، وہ اقدار کی ایک منفرد ترکیب پیش کرتے ہے اور اس میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ بظاہر مختلف۔ فرق زیادہ تر تنہائی اور زینوفوبیا کی وجہ سے تھا۔ ہم جانتے ہے کہ ایک ذہین فطین ہی تضادات سے ایک ترکیب نکال سکتا ہے۔ وہ اپنی الگ آواز کو تسلیم کیے بغیر مشرقی اور مغربی ذرائع سے اپنے تصورِ مردِ مومن کے لیے طاقت حاصل کرتا ہے۔
اقبالی آدمی زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے ۔ اس کے وجود کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سفر میں محبت اس کی رہنما بن جاتی ہے۔ یہ محبت، تخلیقی توانائی جمع کرتی ہے، خود کو تازہ دم کرتی ہے۔ جب محبت زندگی کا نچوڑ بن جاتی ہے تو عصری دور اور کئی زمانے آپس میں مل جاتے ہیں۔ انسان اپنی انا کے ذریعے کائنات کو فتح کرتا ہے۔اور اپنی ایک فکر،ایک نظریہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ۔
اقبال ایک اصل مفکر ہیں کیونکہ ان کے الہام اور حکمت کا بنیادی ذریعہ مقدس کتاب القرآن سے آتا ہے۔ اقبال نے قرآن سے گفتار اور تدبر کی عظمت سیکھی۔ اس نے کبھی بھی قرآن کی تشریح کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن اس غیر معمولی محاورے کا استعمال کیا جو اسے خود خدا نے عطا کیا تھا۔ وہ اپنے قاری کے ساتھ ان آسمانی رازوں کو بانٹنے کے لیے استعمال کیا جو ان پر وجدان سے نازل ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مفسرین نے اس کی تفسیر کو آسان نہیں سمجھا اور اسے تفسیر سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔
اسی بنا پر اقبال کے مرد مومن کا تصور اوروں سے مختلف ہے ۔
قرآن مجید میں جو مومن کے صفات بیان کئے گئے وہی ہمیں علامہ اقبال کے کلام میں بھی نظر آتا ہے ۔علامہ نے’’ مرد مومن‘‘ کو عام انسانوں پر فوقیت دی اور شخصیت کو پر کششِ بنا کر دوسروں کے لئے قابل رشک بنایا تاکہ وہ اس مثالی کردار و سیرت کو اپنائے اور ان کی زندگی کا جمود ٹوٹے اور میدان حیات میں اپنی زندگی میں متحرک فعال بن کے رہے۔
مرد مومن شرم و حیا کا پیکر ہوتا ہے، داعیانہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ تزکیہ نفس کا خاص خیال رکھتا ہے ۔اقبال کی نظر میں مرد مومن پیکر یقین ہوتا ہے، اللہ پر ایمان اور اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد وہ پیکر یقین بن جاتاہے ۔اقبال کا مرد مومن وہی ہے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق سچا ،پکا اور بالغ النظر مسلمان ہے۔جنہوں نے اپنے مال و جان کا سودا اللہ سے کیا ہوتا ہے۔جس کے سینے کو اللہ نے شرح صدر عطا کیا ہو ۔اور اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کردیا اور اپنے قلب و ذہن میں رسول اللہؐ کی محبت سما چکا ہے ۔
مرد مومن کا اندازہ گفتگو بہت نرم ہوتا ہے وہ کڑک لہجہ اختیار نہیں کرتا۔’’مردِ مومن‘‘ کی خاص صفت یہ ہے کہ وہ ’’ امر بالمعروف‘‘ یعنی نیکی کا حکم کرتا ہے اور ’’نہی عن المنکر‘‘یعنی برائی سے روکتا ہے۔
مرد مومن اپنے اعمال و افعال سے اس قدر بلند مقام پر فائز ہوتا ہے کہ جہاں پر پھر اس کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے۔اور پھر اللہ تعالیٰ ایسے ہی مرد مومن کو نور سے منور کر دیتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ یاد آئی ۔’’ اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ ‘‘۔مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔
اللہ کے نور سے دیکھنے کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتے ہیں اور جس کو اللہ رہنمائی فرمائے وہی مرد مومن مرد درویش پھر ولی اللہ کہلاتے ہیں ۔ان ولی اللہ کے بارے میں قرآن کہتا ہے ۔’’اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَآءَ اللّـٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ‘‘ (62)خبردار! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت جنید بغدادی کے متعلق ایک مہشور واقعہ ہے کہ ان کے زمانے میں ایک مجوسی تھا ایک دن وہ اپنے گلے میں زنار پہنے اور اس کے اوپر مسلمانوں کا لباس پہن کر حضرت کے پاس آیا اور پوچھنے لگا:حضرت !مجھے ایک حدیث کا مطلب دریافت کرنا ہے حدیث میں آیا ہے : یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے :
اس حدیث کا مطلب کیا ہے ؟حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ مسکرائے اور فرمایا:اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنا زنار توڑ کفر چھوڑ حق پہچان باطل کو ترک کر اور کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو جا ۔مجوسی نے جب یہ سنا تو فوراً اس کی زبان سے نکلا ،’’لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘‘اور مسلمان ہو گیا۔علامہ نے کیا خوب کہا تھا ۔؎
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّار ی
نہ ہے زماں نہ مکاں،لا آلہ الا اللّٰہ
اقبال کے مرد مومن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوتےہیں ۔بقول علامہ مرد مومن کی ادا دلفریب اور نگاہ دلنواز ہوتی ہے ۔
مرد مومن با ہمت ، حوصلہ مند ،بہادر ،غیور بن جاتا ہے ۔وہ مصائب و حالات کے سامنے جھکنے پسند نہیں کرتا بلکہ ہر مصائب کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے مرد مومن چٹان کی طرح اپنی تہذیب ،اپنے تمدن ،اپنی روایات کی پاسداری کرتاہے وہ موسم کی طرح اپنا ارادہ اپنا نظریہ ہیں بدلتا ۔بلکہ اپنا نظریہ لیکر ساری دنیا پہ چھا جانے کی ٹھان لیتا ہے۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
[email protected]