علامہ اقبالؔایک ایسی عظیم المر تبت شخصیت کے حامل ہیں جنہوںنے اردو اور فارسی ادب کو کئی جہات سے متاثر کرکے عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی کوشش کی ۔دراصل ان کے پیشِ نظر متعین نصب العین کے تحت ایک واضح نظام فکر و عمل کی تشکیل و تعمیر تھی ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑی باریک بینی سے اپنے وقت تک دریافت شدہ کائنات سے متّنوع اجزاء و عناصر فراہم کرکے سب کو مقرر و منفرد انداز پر مرتب کیا ۔ اسی لئے وہ خود کو ’’ شاعرِ فر داستم ‘‘ کہتے ہیں۔علامہ اقبال کا تخیل محض وسیع و رنگین ہی نہیں بلکہ رفیع و عمیق بھی ہے ۔ان کی شاعری میں فکر و جذبۂ ، احساس و ادراک ،کاملِ ہم آہنگی ،صوتی نغمگی اور محاکاتی کیفیات کی عمدہ مثا لیںبدرجۂ اتم ملتی ہیں ۔
علامہ اقبال کا فکر و فن وسیع اور غائر مطالعے کا متقا ضی ہے ۔ان کی فکر اپنے اندر بڑی گہرائی اور وسعت لئے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب میں ان کے افکا ر و نظر یات پر تحقیق کا کام ایک طویل عر صہ گزر جانے کے بعد بھی بڑے شدو و مد سے جاری و ساری ہے اور کئی ادارے اس میں سرگرمِ عمل ہیں ۔ ان اداروں میں ’’ اقبال اکادی پاکستان ‘‘ سب سے بڑا ادارہ ہے ۔اس ادارے کا قیام ایک نیم سرکاری ادارے کی حیثیت سے ۱۹۵۱ء میں بمقامِ کراچی عمل میں لایا گیا ۔کراچی چونکہ اس وقت دارلحکومت تھا اس لئے اکادمی کے دفاتر بھی کراچی ہی میں رکھے گئے۔اس ادارے کے قیام کی منظوری ایک ایکٹ کی صو رت میں دی گئی جس سے اقبال اکادمی ایکٹ ۱۹۵۱ ء کا نام دیا گیا۔ اقبال اکادمی ایکٹ میں مجوزہ ادارے کے قیام کی ضرورت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے :
An Act to constitute an academy for the purpose of encouraging and promoting the understanding of the works and teachings of iqbal,,
اگر چہ اقبال اکادمی پاکستان کے منظوری ۱۹۵۱ء میں دی گئی لیکن اکادی نے عملاً کام ۱۹۵۳ء میں شروع کیا اسی سال اکادی کے دفاتر قائم ہوئے اور ڈاکٹر رفیع الدین ( مرحوم ) اکادی کے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔علامہ کی تعلیمات کو عام کرنے اور بین الاقوامی سطح پر اقبال پر ہونے والے عملی اور تحقیقی کام کو مرتب کرنے اور اس میں معاونت کرنے کے لئے اکادمی کے مقاصد اور دائرہ کار میں اضافے کے نتیجے میں ۱۹۶۲ء میں ایک صدارتی آ رڈنیشن کے ذریعے اقبال اکادمی پاکستان کو از سر نو منظم کیا گیا۔یہ آرڈنیشن اقبال اکادمی آرڈنیشن ۱۹۶۲ کہلایا گیا اس کے تحت :
It is expedient to repeal and with certain modifications,teenact…… The Aqbql Academy Act. 1951, for the purpose of bringing greater efficiency in to the administration of the affairs of the academy,,
جب دارلحکومت کراچی سے لاہور منتقل ہوا تو اکادمی بھی لاہور منتقل کی گئی۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور سے اقبال کی نسبت ہے ۔اگر چہ ان کی پیدائش سالکوٹ میں ہوئی لیکن سالکوٹ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدانھوں نے اپنی پوری زندگی لاہور میں ہی گزاری۔اسی شہر سے اقبال نے تعلیم حاصل کی ،اسی میں آپ کے ماہ و سال گزرے اور اسی شہر میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں آپ ابدی نیند سو رہے ہیں ۔
اقبال چونکہ قلندر صفات انسان کے حامل تھے۔وہ درجۂ اول کے مفکر اور تخلیقی فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ جدید نظریات سے پوری طرح واقف، معاشرتی اداروں کے مبصر ،عالمی سیاست کے رمزشناس، اسلام کی اساسِ تعلیمات میں پختہ ایمان رکھنے والے اور نبیؐ کے عاشق زار تھے ۔ان کی نظر عمیق تھی ۔انہیں ہند و پاک کے ذرے ذرے سے والہانہ محبت و عقیدت تھی۔ اسی چیز کو مدِ نظر رکھ کر ۱۹۷۴ء کے اوائل میں صدرِ پاکستان کی خصوصی ہدایت پر اس وقت کے وزیر تعلیم جناب ڈاکٹر محمد افضل نے اکامی کے معاملات کا جائزہ لے کے ایک مثبت اقدام کے طور پر پروفیسر مرزا محمد منور جیسے ماہرِ اقبالیات کو اکادمی کے جز وقتی ناظم کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالنے کی دعوت دی گئی ۔اس کے بعد ۱۹۸۵ء میں پروفیسر محمد منور کو اکادمی کا ہمہ وقتی ناظم مقرر کر دیا گیااور ساتھ ہی نوجوانوں کی ایک ٹیم منتخب کرکے ناظم کے سپرد کی گئی ۔اس ٹیم نے اپنے ناظم کی مدد سے اکادمی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے نئی منصوبہ بندی کی ۔جس کے تحت ملک کے اندر اور باہر افکار اقبال کی ترویج و اشاعت کی غرض سے کلام اقبال کے تراجم، سمیناروں ،مختلف اخبارات و رسائل میں لکھے گئے مضامین و مقالات کی تدوین کی منصوبہ بندی کی گئی ۔اقبال کادمی پاکستان کا سرپرست اعلیٰ اقبال اکادمی آرڈیننس ۱۹۶۲ء کے تحت صدرِ پاکستان کو بنایا گیا۔ صدر اکادمی کو اکادمی کے معاملات میں خاصا عمل دخل حاصل ہے ۔وہ مجلس حاکمہ کے اجلاس کی صدارت ،مجلس حاکمہ کے فیصلوں کی توثیق کے علاوہ نائب صدر ، ناظم اکادمی ،نائب ناظم اکادمی اور معاون ناظمین اکادمی کا تقرر بھی کرتا ہے ۔نائب صدر صدر کی عدم موجودگی میں اکادمی کے اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے اور ساتھ ہی اکادمی کے معاملات میں ناظم اکادمی کی رہنمائی کرتا ہے۔
اقبال اکادمی پاکستان مطالعاتِ اقبال کی تحقیق و تدوین کے علاوہ ان کے فکر و فن کی حقیقی قدرسنجی میں سرگرم عمل ہے ۔یہ اکادمی طالبِ علموںاور اساتذہ کے لئے بھی ہر سال توسیعی خطبات کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی مذاکروں کا اہتمام بھی کرتی رہی ہے ۔اگر چہ اقبال اکادمی پاکستان کے اغراض و مقاصد مطالعۂ اقبال کی بازیافت ہے لیکن حکومت پاکستان کے ۱۹۷۷ء کے ایک اجلاس میں ثقافت ، کھیل ،سیاحت وغیرہ کو بھی اکادمی کے مقاصد میں شامل کیا گیا ۔اکادمی کا بنیادی مقصد اور نصف العین اقبال کے افکار اور نظریات پر تحقیق کرنا ہے تاکہ فکرِ اقبال کے پوشیدہ گوشے اجاگر ہو سکیں اور اقوامِ عالم کو فکرِ اقبال سے متعارف کرایا جائے تاکہ وہ اپنے اپنے مسائل کے سلسلے میں اقبال کے نظریات اور افکار سے بصیرت حاصل کر سکیں ۔اقبال اکادمی جن مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے کوشاں ہے وہ ہیں :
۱۔ علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے پیغامات کو ملک اور بیرون ملک کے گوشے گوشے میں پھیلانا ۔اقبال کی کئی نظمیں اور اشعار ایسے ہیں جو آج بھی ہمارے لئے بانگ ِدرا کی حیثیت رکھتے ہیں۔جن کے مطالعے سے انسان دوستی ، عالمی بھائی چارہ اور اتحادکا وہ پیغام ملتا ہے جس کی تلقین ہمارے قومی رہنماعرصہ سے کرتے آرہے ہیں۔اقبال نے اپنی شاعری سے گرونانک،رام ، گوتم بدھ اور بھرتری ہری کو خراجِ عقیدت پیش کرکے نہ صرف مذہبی رواداری کا پرچار کیا بلکہ اعلیٰ اقدار کو بھی اجاگر کیا جوسیکولرزم سے عبارت ہیں۔اپنے پہلے ہی مجموعہ کلام ِ اردو میںاقبال نے’’ سوامی رام تیرتھ‘‘ کے عنوان سے جو نظم رام تیرتھ کی خدمت میںلکھی اور جس میں انہوںنے انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری کسی خاص قوم ، ملت یا طبقے کے لئے نہیں ہے بلکہ ان کا پیغام پورے اقوامِ عالم کے لئے ہے ، اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ۔ملاحظہ فرمائیے یہ چند اشعار ؎
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بیتاب ! تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہرِنایا ب تو
آہ کھولا کس ادا سے تو نے رازِ زنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز زنگ و بو
مٹ کے غوغا زندگی کا شورشِ محشر بنا
یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آذر ؔ بنا
توڑ دیتا ہے بتِ ہستی کو ابراہیمِ عشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستیٔ تَسنیم عشق
۲۔ تحقیقی کام اور منصوبوں کے لئے وظائف دے کر ریسرچ اسکالر مقرر کرنا ۔
۳۔ اقبال کی شاعری اور افکار کے مختلف پہلؤں کو کتابوں ، رسالوں اور پملٹوں کے ذریعے عام کرنا ۔
۴۔ علامہ اقبال کے متعلق گراں قدر تخلیقی کارناموں پر اہلِ قلم اور مصنفوں کو انعامات اور عطیات دینا ۔
۵۔اقبال اکادمی کی جانب سے اقبال پر معیاری کتب کے مصنفین کو معقول معاوضے دینا اور ان کے کتب کی اشاعت کرنا ۔
۶۔لیکچروں ، مباحثوں ، گفتگو ؤ ں ، سمیناروں ، نمائشوں اور کانفرسوں کے ذریعے شعرِ اقبال کی تر ویج کرنا ۔
۷۔ اندرون اور بیرون ملک عِلمی اور ثقافتی کانفرنسوں میں اقبال اکادمی کے نمائندے شریک ہو کر علامہ کے پیغامات کو فروغ دینے اور عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۸ ۔اقبالیات پر کام کرنے والے اور اقبال کے پیغام کی توسیع کرنے والے ادیبوں کو اعزازی ممبرشپ کا مستحق قرار دینا ۔
۹۔ ایسے اداروں کے ساتھ تعاون کرناجو علامہ کے کام اور پیغام کو عام کرنے میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہو۔
اقبال اکادمی پاکستان نے اقبال کے فکر و فلسفہ کی ترویج اور تقویم کی سہولیت کے لئے مختلف شعبے قائم کئے ہیں جن کی تفصیل یہ ہیں :
۱۔شعبہ ادبیات:- یہ اکادمی کا سب سے اہم اور مرکزی شعبہ ہیں۔اس شعبے کا مقصد فکرِ اقبال کی توضیع ،تشریح اور تفہیم کرنے کے ہیں ۔ اکادمی کے مقاصد کی تکمیل کے لئے یہ شعبہ مختلف امور سر انجام دیتا ہے اور ان امور کی سر انجام دہی کے سلسلے میںناظم اور نائب ناظم کی معاونت کرتا ہیں۔یہ شعبہ مندرجہ ذیل امور سر انجام دیتا ہیں :
((aمنصوبہ بندی :- اقبال اکادمی پاکستان کو اپنے علمی اور تحقیقی کام کی تکمیل کے لئے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے جس کے تحت اکادمی نے اپنے کام کو تقسیم کر رکھا ہے ۔منصوبہ بندی کے تحت اقبال اکادمی پاکستان اقبال کے فکر و فن سے متعلق بنیادی معلوماتی موادمثلاً اقبال کے مسودات ، ان کی کتابوں کے اولین ایڈیشنوں، مقالات ، تصاویر اور ان کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریروں کے تحفظ و انصرام کی فراہمی میں سرگرم عمل ہے۔
(b )رسائل :- اقبال اکادمی پاکستان سے ہر سال اقبالیات کے حوالے سے بے شمار کتابوں کی اشاعت کے علاوہ مختلف رسائل بھی شائع کیے جاتے ہیں جن میں ’’ اقبال ریویو ‘‘ اور ’’ اقبالیات ‘‘خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔
رابطہ :کلورہ شوپیان کشمیر ( انڈیا )
فون نمبر9596469683, 729816780
ای ۔میل : [email protected]
(بقیہ سوموار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)