شبیر بٹ
عصر حاضر میں افواہ بازی ایک معتبر پیشہ بن چکا ہے ۔بڑے بڑے عہدوں اور منصبوں پر کام کرنے والے حضرات اس پیشے سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنا روزگار کما رہے ہیں ۔اب جن کا یہ مستقل پیشہ نہیں ہے وہ اوور ٹائم (Overtime )کے طور پر اس پیشے میں اپنا نام کما رہے ہیں اور کمائی کر رہے ہیں ۔اب دیکھے پچھلے کئی سال سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ اب کورپشن کا خاتمہ ہو رہا ہے ۔ کیونکہ یہاں حقیقت کے بازار میں کم اور افواہوں کے بازار میں کچھ زیادہ ہی چہل پہل اور ریل پیل ہوتی ہے، اس لئے یہ افواہ بھی خوب پھلی پھولی کہ اب کورپشن نہیں ہے جب کہ سینکڑوں خبریں ایسی بھی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں جگہ ایک ملازم کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔فلاں جگہ چھاپہ مار ایجنسی نے لاکھوں یا ہزاروں روپے لینے کے الزام میں ایک کرمچاری کو دبوچ لیا ۔حالانکہ یہ بھی افواہ ہی ہوتی ہےکہ جس کو رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اس کو دبے پائوں پھر باعزت رہا کیا جاتا ہے ۔جس کو دبوچنے کی افواہ ہوتی ہے، وہ دبوچا نہیں جاتا کیونکہ یہاں بے بس اور لاچاروں کو ہی دبوچا جاتا۔ اب جو نہ رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں اور نہ جن کو دبوچا جاتا ہے، ان کی گنتی کرنی بھی مشکل ہےاور وہ محض افواہ نہیں بلکہ حق اور صداقت پر مبنی افواہ ہوتی ہے ۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ حق اور صداقت تو افواہ کے متضاد ہیں مگر یہاں جب تک صداقت کو بھی افواہ کا لباس اوڑھ کر پیش نہ کیا جائے تب تک صداقت بھی فوق فطری عنصر ہی معلوم ہوتی ہے ۔کورپشن کے بارے میں بھی یہ افواہیں گشت کرتی پھرتی ہیں کہ اب نہیں ہے، جب کہ سڑک پر لوڈ کیریر والے کو روک کر ایک اور صفر صفر کا نوٹ یہ کہہ کر وصول کیا جاتا ہے کہ آگے تین کیوں بٹھائے ہیں اور واپسی پر پھر پچاس کا نوٹ یہ کہہ کر دبوچا گیا کہ پیچھے کیوں سواری بٹھائی ہے۔ یہاں لسٹ کالعدم ہوتے ہیں مگر یہ کالے دُم والے آئندہ کی تیاری میں لگے رہتے ہیں ۔ جگہ جگہ دیوار کے سائے تلے ،سرسبز شاداب باغوں میں، مو ونگ چیئرز پہ، ڈیکوریٹ ٹیبلوں کے نیچے، مین گیٹ کے دروازوں پر،یہاں تک کہ آئی ۔سی ۔یو اور ایمرجنسی وارڈ میں بھی ہزاروں بے بس اور مجبور لوگوں کو دبوچا جاتا ہے مگر کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی ہے اور اگر خبر ہوتی بھی ہے تو بے بسی کے بغچے میں ڈال کر اسے دفن کیا جاتا ہے ۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اب ہر بازار میں،ہر دفتر میں ایک لیٹر بکس رکھا جائے گا، جس میں عام آدمی ان کورپٹ لوگوں کے خلاف اپنی شکایت لکھ کر ڈال سکتا ہے اور ان کا ازالہ بھی جلد کیا جائے گا ۔میں نے کہا یہ افواہ ہے اور افواہوں پہ دھیان نہیں دینا چاہیے ۔ اس نے کہا ؎
دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو کوئی افواہ ہی پھیلاو کہ کچھ رات کٹے