افغان طالبان ۔۔۔ حربی خود انحصاری؟

Kashmir Uzma News Desk
13 Min Read
  ۲۰۱۴ء کے آخر میں جب امریکا نے افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کیاتو اس کے بعد سے طالبان نے مائننگ کے شعبے میں دلچسپی بڑھادی ۔ اس کیلئے سیکورٹی کے مسائل بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ جب امریکی فوج نے جزوی انخلا شروع کیا اور اس دوران افغان فوج کی تربیت اور مدد کا سلسلہ شروع کیا تب طالبان نے مختلف علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی ٹھانی اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ پوست کی فصل کے ساتھ ساتھ معدنیات سے بھی آمدن بڑھانے پر توجہ دی جانے لگی۔ کئی علاقوں پر تصرف پانے کے بعد طالبان نے وہاں کے معدنی ذخائر کو بروئے کار لانا شروع کیا۔۱۵ نومبر۲۰۱۶ء کی پوزیشن کے مطابق افغانستان کے۴۰۷/ اضلاع میں سے صرف ۵۷ فیصد پر کابل حکومت کا نمایاں کنٹرول تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں پر کابل حکومت کا اختیار اور تصرف گھٹتا ہی جارہا ہے۔ ہلمند کے۱۴ میں سے۱۱/ اضلاع طالبان کے کنٹرول میں رہے ہیں۔ یہ اگست۲۰۱۶ء کی پوزیشن ہے۔ اس کے نتیجے میں طالبان کو معدنیات کے ذخائر سے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ ۳۴ میں۱۴ سے صوبوں میں سیکڑوں مقامات پر سے معدنیات نکالی جا رہی ہیں۔ کابل سمیت کئی علاقوں میں طالبان معدنی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مجموعی طور پر معدنیات کے۱۰ ہزار ذخائر ایسے ہیں جو کابل حکومت کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں ہیں۔ جون۲۰۱۶ء میں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ غیر قانونی طریقے سے معدنیات نکالی جارہی ہیں اور اس سلسلے کو روکنے میں حکومت کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ۱۲۷۰مقامات پر غیر قانونی طر یقے سے معدنیات نکالنے کا عمل روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 
طالبان نے ہلمند پر زیادہ توجہ دی ہے کیونکہ۲۰۱۴ء سے اب تک یہ صوبہ کئی مواقع پر پورا کا پورا طالبان کے کنٹرول میں آتا رہا ہے۔ طالبان ہلمند میں مختلف ذرائع سے ہر سال کم وبیش ۲ کروڑ ڈالر کماتے رہے ہیں۔ غیر جانبدار ذرائع کا کہنا ہے کہکٹھ پتلی حکومت ہلمند کے حوالے سے جو اندازے پیش کر رہی ہے طالبان ان سے کہیں زیادہ کما رہے ہیں۔ ہلمند میں سنگِ مرمر کی اعلی اقسام پائی جاتی ہیں۔ زرد، ہلکا سبز، گہرا سبز اور گلابی یوں چار طرح کا سنگِ مرمر ہلمند سے ملتا ہے، جس کی عالمی منڈی میں خاصی مانگ ہے۔ گلابی سنگِ مرمر غیر معمولی اہمیت کا حامل اور خاصا مہنگا ہے۔ طالبان سنگِ مرمر لے جانے والے ہر ٹرک سے مال کی کوالٹی کے لحاظ سے۲۵ تا۶۰ ہزار روپے فی ٹن کی شرح سے ٹیکس لیتے ہیں۔ ہر ٹرک پر۷ سے۴۰ ٹن تک ماربل لدا ہوا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ۲۰۰۸ء سے۲۰۱۴ء کے دوران ہلمند سے ہر سال ایک لاکھ۲۴  ہزار تا ایک لاکھ۵۵ ہزار ٹن سنگِ مرمر نکالا گیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ہلمند سے روزانہ۵۰ ٹرک سنگِ مرمر لے کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ حکومت کو سنگِ مرمر پر لگائے جانے والے ٹیکس سے خاصی قلیل آمدن ہوتی ہے۔ یہ ٹیکس ۳۳ ڈالر فی ٹن تک ہے۔ 
ہلمند میں طالبان کا معاملہ اب سنگِ مرمر پر ٹیکس عائد کیے جانے تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ مائننگ لائسنس پر بھی رقوم وصول کر رہے ہیں۔ طالبان اسے اپنی اہم کامیابی گردانتے ہیں ۔ اس سے ان کی آمدن میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ کان کنی کرنے والے چند ادارے لائسنس کی مد میںکٹھ پتلی حکومت کو بھی رقم ادا کرتے ہیں تاہم لائسنس ان کے پاس صرف طالبان کا ہوتا ہے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ ہلمند میں ایسے۳۵ مقامات ہیں جہاں سے غیر قانونی طور پر سنگِ مرمر نکالا جارہا ہے۔ ان میں ایسے دور افتادہ علاقے بھی شامل ہیں جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ دابارو کمسیون اور مالی کمسیون سے تعلق رکھنے والے افغان ذمہ داران خان نشین اور بیرم چاہ جیسے اضلاع میں اپنی موجودگی یقینی بناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وصولی ممکن بنائی جاسکے۔ سنگِ مرمر کی چند ایک کانیں طالبان عہدیداروں کی ملکیت میں بھی ہیں۔ ان میں سینئر طالبان کمانڈر(امیر خان متقی)کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ امیر خان متقی ثقافتی کمیشن کے سربراہ رہے ہیں۔ دیگر عہدیداروں میں ملا منان اور ملا محمد عیسیٰ بھی شامل ہیں۔ 
طالبان نے ماضی میں بھی معدنیات پر ٹیکس عائد کرکے اس مد میں غیر معمولی آمدن یقینی بنانے کی کوشش کی تھی۔ کرومائٹ اور دیگر معدنیات نکالنے پر ٹیکس لگایا گیا تھا اور اس حوالے سے کچھ نہ کچھ وصولی کی جاتی تھی۔ معدنیات سے وصولی کی پوری ذمہ داری دابارو کمسیون  پر عائد ہوتی ہے۔ مائننگ کمپنیوں سے لائسنس یا کسی اور مد میں وصولی بھی دابارو کمسیون ہی کرتا ہے۔ دابارو کمسیون کئی کاروباری شخصیات سے بھی رابطے میں رہتا ہے تاکہ غیر قانونی طور پر نکالنے جانے والی معدنیات کو بلیک مارکیٹ میں آسانی سے فروخت کیا جاسکے۔ 
ایسا نہیں ہے کہ قیمتی پتھر غیر قانونی طریقے سے نکالنے کا سلسلہ دور افتادہ علاقوں تک محدود ہے۔ کابل سے محض۲۵ کلو میٹر اور امریکی کنٹرول والی بگرام ایئر بیس سے محض۱۲ کلومیٹر کے فاصلے پر پروان صوبے میں قیمتی پتھر نکالنے والی ایک سائٹ پر اب تک کام جاری ہے اور بظاہر کسی بھی طرف سے روک ٹوک کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہاں سے نیفرائٹ جیڈ نکلتا ہے جو زیورات کی تیاری میں کام آتا ہے۔ یہ مقام نیلی کہلاتا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ نیلی میں مائننگ کا عمل بہت حد تک طالبان کے کنٹرول میں رہا ہے اور یہ سلسلہ ۲۰۱۶ء کے دوران بھی جاری رہا ہے۔ یہ قیمتی پتھر کابل لایا جاتا ہے اور وہاں سے پاکستان منتقل کردیا جاتا ہے۔سروبی کے مقام پر بھی معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں، جن سے بھرپور استفادہ اب تک ممکن نہیں ہوسکا تاہم غیر قانونی طریقوں سے معدنیات  نکال کر اسمگل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ طالبان کے زیر تصرف یہاں سے زمرد اور دیگر قیمتی پتھر نکالے جاتے رہے ہیں۔ یہاں سے نکالا جانے والا ایک زمرد دبئی میں چھ لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ افغان سیکورٹی فورسز نے غیر قانونی مائننگ روکنے کی بہت کوشش کی ہے مگر اب تک اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ سروبی سے اب تک معدنیات نکالی جارہی ہیں۔ قیمتی پتھر نکال کر پاکستان اور دیگر ممالک کو اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ کابل کے نواح میں غیر قانونی کانوں سے نکالی جانے والی معدنیات اور قیمتی پتھر پشاور منتقل کیے جاتے ہیں ۔ کابل کے نواح سے نکالنے والے قیمتی پتھر پشاور کی نمک منڈی میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ 
طالبان نے لائم اسٹون اور کوئلے کی مائننگ بھی جاری رکھی ہے، جس سے خاصی آمدن ہوتی ہے۔ کوئلہ بامیان میں نکالا جاتا ہے، اس صوبے میں کوئلے کی بیشتر کانیں بند کی جاچکی ہیں مگر پھر طالبان کی آمدن کا ایک اہم ذریعہ بامیان کی مائننگ ہے۔ اجمالاً یہ کہا  جا سکتا ہے کہ طالبان نے آمدن کے دیگر ذرائع کے ہوتے ہوئے بھی معدنیات کے شعبے پر خاص توجہ دی ہے۔ پوست کی فصل ، عشراور ٹیکس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مائننگ کا دائرہ بھی وسیع کیا ہے۔ کان کنی سے جڑے ہوئے اداروں سے بھی وہ لائسنس کی مد میں خطیر رقوم وصول کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بہت سے علاقوں میں خود بھی معدنیات نکال کرفروخت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی اچھی خاصی رقوم جمع ہوتی ہے۔ دابارو کمسیون طالبان سے وابستہ اداروں میں غیر معمولی ساکھ کے ساتھ ابھرا ہے۔ معدنیات کے شعبے میں طالبان کا نفوذ کئی سال سے جاری ہے اور اس راہ میں بظاہر کوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔ طالبان نے اپنی پوزیشن اس حوالے سے غیر معمولی حد تک مستحکم کرلی ہے۔ جہاں بھی طالبان کا تصرف غیر معمولی ہے وہاں معدنیات نکالے جانے کا عمل تیزی سے جاری رہا ہے۔ اس مد میں طالبان کی آمدن اتنی ہے کہ وہ خود بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ 
افغانستان میں معدنیات کے ذخائر کو جس بری طرح نوچا اور بھنبھوڑا جارہا ہے، اسے دیکھ کرکابل حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں یکساں طور پر پریشان ہیں مگر اس صورت حال میں فوری طور پر کوئی انقلابی قدم اٹھانا ان کے بس کی بات نہیںکیونکہ ان کو بھی اندازہ ہے کہ جب تک ملک میں استحکام نہیں آئے گا، سلامتی کی صورت حال قابل رشک حد تک بہتر نہیں بنائی جاسکے گی تب تک معدنیات سے مستفید ہونا اور قومی خزانے کو بھرنا کابل حکومت کیلئے ممکن نہ ہوسکے گا۔ اس حوالے سے لیگل فریم ورک تیار کرنا اور مائننگ کے شعبے کو باضابطہ شکل دینا لازم ہے مگر وہ فی الحال ایسا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس وقت افغانستان میں مائننگ کا شعبہ انتہائی قابل رحم حالت میں ہے۔کابل حکومت اب تک اپنی بقاء کیلئے لڑ رہی ہے اور دوسری طرف سیکورٹی اب تک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ طالبان جہاں بھی موقع دیکھتے ہیں، حکومت کے سیکورٹی سیٹ اپ کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ملک میں سیکورٹی کا مسئلہ رہے گا تو تمام غیرملکی افغان سرزمین سے انخلاء کیلئے مجبورہوجائیں گے اوریہی ان کی اوّلین ترجیح ہے۔
ادھرافغانستان کے امورسے متعلق ایک اہم ذریعے سے معلوم ہواہے کہ امریکاافغانستان میں فوج کی تعدادمیں اضافہ کرکے دراصل اس سال افیون کی چودہ ارب ڈالر کی پیداوار ہتھیاناچاہتاہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ طالبان اس سرمائے سے بلیک مارکیٹ سے جدیداسلحہ خریدکرایک بہترپوزیشن میں امریکاکی افواج کیلئے مزیدمشکلات پیداکرسکتے ہیں جس سے امریکااپنے مستقبل کے مقاصدکے حصول میں ناکام ہوجائے گا لیکن افغان طالبان کے ایک ذرائع نے امریکاکومتنبہ کیاہے کہ ۲۰۱۴ء تک افغانستان میں امریکااور نیٹو کے اڑتالیس ممالک کے ایک لاکھ ۶۵ہزارفوجی افغان طالبان کوشکست دینے میں ناکام رہے جبکہ طالبان اب توپہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اورجدیداسلحے سے لیس افغانستان کے شمال میں بھی اپنی پوزیشن مستحکم کرچکے ہیں،اس لئے انہیں ان گیدڑبھبکیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (ختم شد)

 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *