افغانستان میں گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے کے دوران حالات انتہائی خراب صورت حال کی عکاسی کررہی ہے ۔ افغانستان کے کئی شہروں میں اور خاص کر درالحکومت کابل میں طالبان اور شدت پسندقوتوں کی جانب سے اہم مقامات پر پے درپے حملوں نے کئی سوالات اٹھا دیے ۔ یہ صورت حال جہاں پر افغان حکومت اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی بیان کرتی ہے وہاں پر عالمی طاقتوں اور خاص کر امریکا کی افغانستان میں ناکامی بھی ظاہر کررہی ہے ۔ جو یہ اٹکلیں لگائی جارہی تھیں کہ طالبان قیادت کی موت کے بعد اور طالبان میں کئی گروپوں کی تقسیم سے شاید طالبان کمزور ہوگئے، یا وہ اب اس طرح منظم نہیں رہیں گے جس طرح پہلے تھے اورافغانستان میں جمہوری عمل کو تقویت مل جائے گا۔ امریکاکے نکلنے کے بعد یہاں پر ایک جمہوری نظام اسی طرح جاری رہے گا لیکن ان تمام قیاس آرائیوں کے برعکس گزشتہ کچھ عرصہ میں ہونے والے بم دھماکوں ، خودکش حملوں اور طالبان کی اہم مقامات خاص کر کابل میں پے درپے حملوں نے کئی سوالات پیدا کردیے۔
افغانستان میں کابل حکومت کو پہلے صرف طالبان کا خطرہ تھا، اب ان کو طالبان کے ساتھ ساتھ داعش سے بھی شدید خطرہ درپیش ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ گزشتہ قلیل مدت کے دوران چار بڑے حملوں میں دو حملوں کی ذمہ داری داعش نے اور دو کی طالبان نے قبول کی ہے۔افغان وزیر داخلہ وارث برمک کے مطابق دونوں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو حکومت کے خلاف اکساکر حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور افراتفری کا ماحول پیدا ہو۔ا نہوں نے کہا ہے کہ دونوں شدت پسند گروپوں کا مقصد ایک ہی ہے ۔ افغان وزیر نے پاکستان پر بھی حسب سابق الزام عائد کیا کہ وہ دونوں گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔بعض رپورٹس کے مطابق افغانستان میں متعدد جنگجوں نے طالبان سے دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی ۔ کئی جنگجوؤں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی وفاداری تبدیل کریں۔ دونوں تنظیموں کے مقاصد مختلف ہیں۔ طالبان کے نزدیک اگر حکومت میں سے کوئی اپنے کئے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا ہے تو اس کو معاف کر دینا چاہیے جب کہ دولتِ اسلامیہ کے مطابق اس کو مار دینا چاہیے۔ رپورٹس کے مطابق دولتِ اسلامیہ مبینہ طو تبلیغ کرتی ہے کہ مسلمان صرف وہ ہیں اور طالبان نہیں ہیں اور یہ رحم پر یقین نہیں رکھتی۔ خیال رہے کہ پاکستان ہمیشہ شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے اور افغانستان کے اندر شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرتا ہے۔پا کستان کی جانب سے افغانستان میں کیے جانے والے شدت پسند وں کے بڑ ھتے ہوئے واقعات پر جہاں افسوس کا اظہار ہوتا ہے وہاں پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ افغان حکومت اور امر یکا کی ناکامی ظاہر کرتی ہے ۔ بر طا نوی میڈ یا کی تحقیقاتی رپوٹس کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج نے جن طالبان کو شکست دینے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے وہ اب ملک کے 70 فیصد علاقوں میں کھلے عام سرگرم ہیں۔ملک کے طول و عرض میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کیسے سنہ 2014 میں افغانستان سے غیرملکی فوج کے انخلا ئ کے بعد متعدد علاقوں پر طالبان کا اثرو رسوخ بڑھا ،یا ان علاقوں کو ان سے خطرہ لاحق ہوا۔افغان حکومت نے اس رپورٹ کی اہمیت کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ تر علاقے پر اس کا کنٹرول ہے۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں کابل اور دیگر علاقوں میں ہونے والے پے درپے حملوں میں 2سو سے زیادہ افراد کی موت اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے ہیں، جس کو کنٹر ول کرنے میں افغان حکومت مکمل طور پر ناکام دکھائی دی۔ ان حالیہ حملوں نے دنیا بھر میں ایک ہی سوال پیدا کیا کہ کیاآنے والے وقت میں افغان حکومت طالبان کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ اس کا واضح جواب افغان صدر اشرف غنی کی ٹی وی چینلز کو انٹرویو میں ملتا ہے کہ اگر امریکا افغانستان سے چلا گیا تو غالب امکان یہی ہے کہ طالبان دوبارہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالیں گے۔ افغان فورسز اتنی طاقت ور نہیں کہ طالبان کامقابلہ کریں۔اس رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد جو کہ ملک کی نصف آبادی کے برابر ہیں، ایسے علاقوں میں مقیم ہیں جو یا تو طالبان کے کنٹرول میں ہیں یا وہاں طالبان کھلے عام موجود ہیں اور تواتر سے حملے کر رہے ہیں۔یہ واضح ہے کہ طالبان افغانستان کے جنوبی علاقوں میں اپنے روایتی ٹھکانوں سے نکل کر اب ملک کے مشرقی، مغربی اور شمالی حصوں میں بھی جگہ بنا چکے ہیں۔ 2014 کے بعد جو علاقے طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں ،ان میں صوبہ ہلمند میں سنگین، موسیٰ قلعہ اور نادِ علی بھی شامل ہیں جنھیں ماضی میں غیر ملکی افواج نے شدید لڑائی کے بعد طالبان کے قبضے سے چھڑوایا تھا۔اس تحقیقا ت سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ بھی افغانستان میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سرگرم ہے لیکن ابھی وہ طالبان جتنی طاقت ور نہیں۔
اس وقت افغانستان کے 14اضلاع پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے جب کہ 263اضلاع ایسے ہیں جہاں وہ سرگرم ہیں اور کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ تعداد ماضی میں طالبان کی طاقت کے بارے میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔وہ علاقے جہاں طالبان کی کھلے عام موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کی بات کی گئی ہے، وہاں وہ سرکاری عمارتوں پر اکثر حملے کرتے ہیں جن میں فوجی اڈوں پر مربوط حملوں سے لے کر انفرادی حملے تک سب شامل ہیں۔تحقیق کے دوران ملک بھر میں طالبان کی جانب سے ٹیکس وصولی کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔ ایسے اضلاع جہاں وہ کھلے عام موجود تھے، وہ کسانوں، مقامی تاجروں اور تجارتی قافلوں سے ٹیکس لے رہے ہیں۔
شہروں میں صورتحال کتنی خراب ہے؟تین سال قبل افغانستان سے عالمی افواج کے انخلا کے بعد سے تشدد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق سنہ 2017کے ابتدائی نو ماہ میں ملک میں ساڑھے آٹھ ہزار شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان میں سے بیش تر شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے مگر کچھ شہری افغان فوج کی امریکی مدد سے کی جانے والی زمینی اور فضائی جوابی کارروائیوں میں بھی مارے گئے۔اگرچہ ملک کے زیادہ تر علاقوں میں ہونے والا تشدد رپورٹ نہیں ہوتا لیکن بڑے شہروں میں ہونے والے حملے دنیا بھر کے میڈیا میں رپورٹس ہوتے ہیں۔ اب یہ حملے زیادہ تواتر سے ہو رہے ہیں اور افغان سکیورٹی فورسز بظاہر انہیں روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ان حالیہ حملوں نے ا فغانستان خاص کر کابل شہر میں عام لوگوں کے خوف میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ خطاب کو دیکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ سولہ برس گزر جانے کے بعد بھی امریکہ کی طویل ترین جنگ، یعنی افغانستان کی لڑائی، مزید طویل ہونے جا رہی ہے۔صدر ٹرمپ کا افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے ٹائم ٹیبل کی پالیسی کو ترک کرنا اور حالات کی بنیاد پر بنائی جانے والی حکمت عملی کی جانب پیش قدمی کا عندیہ دینے کا مطلب یہی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے واپس جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی نئی پالیسی کو منظر عام پر آنے میں بہت تاخیر ہوئی، لیکن سا بق امریکی صدور کی طرح، مسٹر ٹرمپ بھی وہی کرنے جا رہے ہیں جو ان کے جرنیل انھیں بتا رہے ہیں۔اگرچہ اپنے خطاب میں امریکی صدرنے افغانستان میں ممکنہ اضافی امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے جرنیلوں کے اس مشورے پر عمل کرنے جا رہے ہیں کہ افغانستان میں مزید تین ہزار آٹھ سو افراد بھیجنے پڑیں گے۔ ان میں فوجی تربیت دینے کے ماہرین اور وہ مشیر شامل ہوں گے جو افغان حکومت اور فوج کو مشورے دیں گے۔افغانستان میں امریکہ کے جنگی اخراجات 45 ارب ڈالر سالانہ ہے جب کہ اس وقت مجموعی طور پر سولہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں ،افغانستان میں جاری جنگ کی امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو ہر سال 45 ارب ڈالر قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ جنگ مستقبل قریب میں ختم ہوتی نظر بھی نہیں آتی۔امریکی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکی منتخب اراکین نے جنہیں افغانستان میں کامیابی حاصل کرنے کا یقین نہیں، ہفتہ عشرہ قبل ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان میں طویل ترین جنگ اور اس جنگ کو جس سمت میں لے جایا جا رہا ہے ،اس پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔افغانستان میں جنگ سترہویں برس میں داخل ہو گئی ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جنگ مزید کتنے سال جاری رہے گی۔رپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے کہا ہے کہ کروڑوں اربوں ڈالر ضائع کیے جا رہے ہیں اور ہم ایک کھائی میں پھنس گئے ہیں اور اس سے نکلنے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر جیف مرکلی نے کہا ہے کہ ہر دو سال بعد امریکی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ افغانستان میں بس جنگ کا پانسہ پلٹنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کرپشن، مفلوج حکومت اور سکیورٹی فورسز اصل مسائل ہیں۔ جنگی دباؤ بڑھا کر طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی امریکی امیدیں بھی باور ثابت ہوتی نظر نہیں آتی۔ا نہوں نے کہا کہ طالبان مذاکرات کے لیے کیوں تیار ہوں گے جب وہ افغانستان کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہیں۔ سنہ دو ہزار ایک کی نسبت آج طالبان افغانستان کے زیادہ بڑے حصے پر قابض ہیں۔دوسری طرف نائب وزیر خارجہ جان سلوین جنہوں نے حال ہی میں کابل کا دورہ کیا تھا اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی، انھوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ افغانستان میں صورت حال کوئی روشن تصویر پیش نہیں کر رہی۔انھوں نے کہا کہ امریکہ کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کرانے کے لیے کوششیں کرتے رہنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر اشرف غنی بھی اس سوچ کے مالک ہیں۔
پا کستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس صورت حال پرکہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ میں پالیسی کے لحاظ سے نئے تجربات کیے جا رہے ہیں لیکن پاکستان اور افغانستان کا جغرافیہ ایک ہی ہے، اس لیے امریکہ کے لیے افغانستان میں امن کی کوششوں میں دنیا میں کوئی ملک پاکستان سے زیاد اہم اور مددگار نہیں ہو سکتا۔انہوں نے خطے میں امریکہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک اہم ہیں اس لیے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔احسن اقبال کے مطابق افغان پالیسی سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ بے شک نیا ہو مگر بداعتمادی کے پیچھے الزام تو وہی پرانا ہے کہ پاکستان مخصوص انتہاپسندوں کو محفوط پنا گاہیں مہیا کر رہا ہے۔ اس سے متعلق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بر طانوی نشریاتی ادارے کی تاز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کا 70 فیصد علاقہ افغان حکومت کے کنٹرول میں نہیں، امریکہ کہتا ہے 45 فیصد علاقہ انتہاپسندوں کے کنٹرول میں ہے تو ایسے میں انتہاپسندوں کو پاکستان میں محفوظ پنا گاہوں کی ضرورت ہی نہیں۔وزیر داخلہ احسن اقبال نے افغان موقف کی بھی تردید کی کہ ان کے حوالے کیے جانے والے طالبان ، انتہاپسند نہیں بلکہ عام افغان پناہ گزین ہیں۔ پا کستان کی جانب سے ہمیشہ افغان مسئلے کا واحد حل مذاکرات کو ہی قرار دیا ہے کہ امریکا نے تمام طاقت افغانستان میں استعمال کی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا ،اب وقت کا تقاضا ہے کہ بات چیت سے افغانستان کا پرامن حل نکالا جائے ۔ افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔امریکی صدر کو اپنے وعدے پر عمل کرنا چاہیے اور افغانستان کی زمینی حقائق کو تسلیم کرکے اپنی افواج کو واپس بلا کر پاکستان اور چین کی مدد سے افغانستان کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے ۔ اس سے افغانستان کا مستقبل پرامن ہوسکتا ہے اور حالات کنٹرول ہوسکتے ہیں۔
�����