سرینگر// سرینگر کے سویہ ٹینگ لسجن میں14برس قبل12ویں جماعت کے طالب علم کی ہلاکت میں ریاستی محکمہ داخلہ اور پولیس کی طرف سے فوج کو قصور وار ٹھہرانے کے باوجود وزارت دفاع آسام ریجمنٹ سے وابستہ افسر سمیت9اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کو منظوری نہیں دے رہی ہے۔ جاوید احمد ماگرے نامی جاں بحق نوجوان کے والد غلام نبی کا کہنا ہے’’ہم10برسوں سے وزارت دفاع کی جانب سے جاوید کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی منظور دینے کا انتظار کر رہے ہیں،مگر فوج کو حاصل خصوصی اختیارات’’افسپا‘‘ کے چلتے قتل میں ملوث اہلکار آزاد گھوم رہے ہیں‘‘۔ ریاستی محکمہ داخلہ نے ایک مکتوب زیر نمبر Home/25/2007 محرر 16جولائی2007 کو جوائنٹ سیکریٹری وزارت دفاع کو ارسال کیا جس میںواضح طور پر کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جاوید احمد ماگرے ولد غلام نبی ماگرے کو آسام ریجمنٹ سے وابستہ اہلکاروں نے اغوا کیا اور بعد میں ہلاک کیا ۔ مکتوب میں مزید کہا گیا ہے کہ یکم مئی2003 کو غلام نبی ماگرے ساکن سویہ ٹینگ نے پولیس تھانہ نوگام میں ایک تحریری شکایت درج کی،جس میں کہا گیا کہ30اپریل اور یکم مئی کی درمیانی شب12ویں جماعت کا طالب علم اپنے کمرے میں سو رہا تھا،اور صبح اس کو کمرے میں نہیں پایا گیا۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ غلام نبی ماگرے کو صبح ایک فوجی لیفٹنٹ کے ذریعے اس بات کا پتہ چلا کہ اس کا بیٹا پولیس تھانہ نوگام میں ہے اور جب وہ تھانہ پہنچا تو انہیں اس بات کی خبر ملی کہ اس کے بیٹے کو نازک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ہے جہاں بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ شکایت کنندہ نے اس بات کا الزام عائد کیا کہ اس کے بیٹے کو119آسام ریجمنٹ نے گھر سے اغوا کیا اور بعد میں فرضی جھڑپ کے دوران ہلاک کیا گیا۔ مکتوب میں کہا گیا کہ اس شکایت پر پولیس تھانہ نوگام میں کیس درج کیا گیا اور تحقیقات شروع کی گئی۔ مکتوب میں مزید تحریر کیا گیا کہ اس سلسلے میں مجسٹریل تحقیقات بھی کی گئی اور تحقیقات کے دوران آسام ریجمنٹ کے ایک افسر کو طلب کیا گیا جس نے کہا کہ جاوید احمد جھڑپ کے دوران زخمی ہوا۔ریاستی محکمہ داخلہ نے جو خط وزارت دفاع کو روانہ کیا اس میں ان سے کہا گیا کہ نوگام پولیس تھانے میں اس سلسلے میں درج ایک ایف آئی آر زیر نمبر64/2003 میں اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی منظوری دی جائے۔مکتوب میں کہا گیا کہ جن گواہوں کے بیانات اس سلسلے میں قلمبند کئے گئے ہیں،انکے مطابق جاوید احمد کھبی بھی جنگجویانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا۔ریاستی محکمہ داخلہ نے مزید کہا کہ مجسٹریل تحقیقات کے دوران یہ پایا گیا کہ مذکورہ طالب علم ایک معصوم نوجوان تھا،جس کو آسام ریجمنٹ کے اہلکاروں نے ہلاک کیا۔ اس کیس کی تحقیقات مکمل کر کے آسام ریجمنٹ کے اہلکاروں کے خلاف چالان بھی پیش کیا گیا۔ اس چالان میں صوبیدار سریندر سنہا، پلاٹون کمانڈر حوالدار ہمنتا بردولی،حوالدار نبھا سنہا،نائک ایل رومیش سنگھ، سپاہی ایس یو بور بھیا،سپاہی زاکر حسین،سپاہی اشوک چودھری، سپاہی ڈیوڈ اور سپاہی بیجوائے سنہا شامل تھے۔جاوید احمد کی والدہ امینہ بیگم کا بھی کہنا ہے کہ میں اس دن کا انتظار کر رہی ہوں جس روز میرے لخت جگر کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو سخت سزا دی جائے گی۔