گزشتہ دنوں حکومت ِہند نے پارلیمنٹ میں صاف لفظوں میںاعلان کردیا کہ وادی ٔکشمیر میں نافذالعمل آرمڈفورسزاسپیشل پاورز ایکٹ( افسپا) کو ہٹانے یا اس میں ترمیم کر نے کی کوئی تجویز مرکز کے زیر غور نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر اس وضاحت سے بلاشبہ یہ عیاں ہوتا ہے کہ فورسز کو کشمیر میں عسکریت مخالف آوپر یشنز کے نام سے افسپا جن غیرمعمولی اختیارات سے لیس کرچکاہے ،اُن میں مستقبل قریب میں کوئی پھیربدل ہوگا اورنہ اس ایکٹ کے نفاذ پر نظر ثانی ہونے کی کوئی اُمید کی جانی چاہیے۔ اس بیان سے بین السطور یہ بھی مترشح ہوتاہے کہ مرکز کشمیر میں ایک غیر معینہ مدت تک بدامنی اور سیاسی بے چینی کے حالات سے نپٹنے کے لئے بدستور ا س قانون کا سہارا لیتا رہے گا ۔ مزیدبرآں یہ کہ وہ اعتدال نواز آوازیں جو افسپا کو کشمیر سے واپس لئے جانے کے لئے مختلف گوشوں سے اٹھتی رہی ہیں ، ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ان کی کوئی سنوائی ہوگی نہ پذیرائی۔ کشمیر میںافسپا کا متواتر نفاذ روزِاول سے ہی ایک متنازعہ فیہ معاملہ بنا۔ غور سے دیکھئے تو اس ڈرکیولائی قانون کے بارے میں اس وقت دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں:پہلا مکتب ِفکر دلی اور ریاست میں اس کے ہم خیال سیاست کاروں پر مشتمل ہے ۔ یہ لوگ کشمیر کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ یہاں اصل مسئلہ’’ سر حد پار دہشت گردی‘‘ ہے ، اس کا مقابلہ کر نے کے لئے وردی پوشوں کو بے پناہ اختیارات دینا قرین عقل ہے۔ بالفاظ دیگر یہ طبقۂ خیال گولی اور گالی سے بازی جیت جانے کافلسفہ رکھتاہے ، لہٰذا افسپا کے سبب جنت بے نظیر کا مسلسل حالت ِ جنگ میں لٹنے اور پٹنے سے اس طبقہ کی جبین ِانسانیت پر کوئی بل نہیں پڑتے۔دوسرا مکتب ِ فکر مزاحمتی عناصر پر مشتمل ہے جو کشمیر کاز کو ایک ناقابل تردید حقیقت مانتے ہیں اور اس کا منصفانہ سیاسی حل ڈھونڈ نکالنے کے لئے متحرک ہیں ۔ ان کی مستقل شکایت یہ ہے کہ دلی کسی موزون کشمیر حل کے بجائے برسوں پہلے کشمیر میں افسپا کے نفاذ کر کے یہاں سات لاکھ فوجی نفری تعینات کر کے موج منارہی ہے کیونکہ اس کی پالیسی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ طاقت کے بل پر کشمیر کاز کی آواز دبائی جائے۔ یوں مرکز اصل سیاسی قضیہ کی نفی کرکے مسئلہ کشمیر کو محض امن وقانون کامسئلہ گردانتا جا رہا ہے اورا س سے گولی اور گالی سے چھٹکارا پا نے میں مرکز کو کوئی قباحت نظرنہیں آتی ۔دلی کے یہ ناقدین برملا کہتے ہیں کہ افسپا ننگ ِانسانیت سیاہ قانون ہے جو نہ صرف جمہوریت کی مٹی پلید کر تا جارہاہے بلکہ اس نے کشمیری عوام کے دن کا چین اور رات کا آرام چھینا ہوا ہے ۔عسکریت پر قابو پانے کے عنوان سے اس قانون کا کیا دھرا فقط یہی ہے کہ اس نے آج تک یہاں جھڑپوں اور معرکوں کوجنم دیا ، جن میں صرف لوگ کٹ مرتے رہے، معلوم ونامعلوم قبریںسجتی رہیں ، بستیاں اُجڑتی رہیں ، بازار جلتے رہے، معاش گاہیں بھسم ہوتی رہیں ،بیواؤں ، نیم بیواؤں ، یتیموں ، زخمیوں، اپاہجوں کی ایک کثیر فوج جابجا جمع ہوتی رہی ، جیلیں اور تعذیب خانے آباد ہوتے رہے، تعلیم وتدریس کا نور ماند پڑتا رہا اور بہ حیثیت مجموعی سیاسی گھٹن اور نفسیاتی دباؤ کاایک ایسا مردم بیزار ماحول تقویت پاتارہا جس میں کشمیری نوجوان خود کو گھرا پاکر اب بھی عسکریت پسندی کی راہ اختیار کر رہے ہیںاور مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس اندھے قانون نے کشمیر کے طول وعرض میں جان ومال کے زیاں کے علاوہ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کی وہ ناقابل بیان تاریخ رقم کی جس کالفظ لفظ دردوکرب کی منہ بولتی داستان ہے ۔ بنابریں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اقتدار کی کرسی سنبھالنے سے قبل اپنے اپنے انتخابی منشوروں میں رائے دہندگان کورجھانے کے لئے بار باراپنا وعدہ دہرایا کہ ہم آرمڈفورسزاسپیشل پاورزایکٹ کو ہٹواکر ہی دم لیں گے لیکن دلی کے سامنے چونکہ ان کی ایک بھی نہ چلی اس لئے حق بات یہ ہے کہ ان کے یہ وعدے مواعید محض سنہرے خواب ثابت ہوتے رہے ۔ آج کی تاریخ میں افسپا کشمیر میں ایک ناقابل تردیدحقیقت کی حیثیت رکھتاہے۔ اس ناپسندیدہ قانون کے بارے میں کڑواسچ یہ بھی ہے کہ گرچہ حکومت ِہند اور وقت وقت کی ریاستی حکومتوںکی سوچ سے اس کے وجوب اور عدم وجوب کے حوالے سے تضاد آرائیاں ظاہر ہوتی رہیں،تاہم فورسزکی بالائی صف اس کالے قانون کو صحیفۂ آسمانی تک ہونے کا درجہ یتی چلی آ رہی ہے ، یہ لوگ اس سنگ دل قانون کو کشمیر میں کالعدم قرار دینے کے حوالے سے باربار اپنے تحفظات ظاہر کر تے ر ہے ہیں۔ بایں ہمہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بشری حقوق کے علمبردار دیگر عالمی ادارے کشمیر میں اس قانون کے تسلسل وتواتر پر انگشت بدندان ہیں ، وہ اسے کالا قانون ، لاقانونیت کا قانون، انسانی حقوق کا اَزلی دشمن ، جمہوری اقدار کا مخالف جتلاتے ہیں اور آئے روز اسے کالعدم قرار دینے کی تاکیدیںاور اپیلیں کر تے ہیں ۔ اتناہی نہیں بلکہ بھارت کی سول سوسائٹی بھی بیک بینی ودوگوش وادی ٔ کشمیر میں افسپا کو انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذمہ دار ٹھہراکر اسے واپس لینے کے لئے تحریری وتقریر ی مہمیں چلا تی رہی ہیں مگر بے سُود۔ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ جنہوں نے پانی ، سڑک ، بجلی اور نالی کے لئے ووٹ مانگا، وہ بھی اپنے عہد حکومت میں لگاتار نئی دلی میںا پنے سیاسی اتحادی کانگریس کی فہمائشیں کر نے سے باز نہ رہے کہ افسپا کو کلی طور نہ سہی کم ازکم تجرباتی بنیادوں پران اضلاع سے تو واپس لے لوجہاں امن وقانون کے حالات قدرے بہتر ہیں لیکن اُن کی اَن سنی کی گئی۔اگرچہ ایک آدھ موقع پر سابق وزیرداخلہ پی چدمبرم نے افسپا کو ہٹائے جانے کا واضح اشارہ بھی دیا مگر بات صرف ہوائی قلعے تک محدود رہی ۔ اس وقت جب کہ مودی سرکار مر کز میں بر سر اقتدار ہے، افسپا کا کشمیر سے ہٹائے جانے کا سوچنا دیوانے کی بڑ ہی کہلا ئے گی لیکن اپنی ایک بات کی طرف وزیراعظم کی دھیان ضرور مبذول ہونی چاہیے کہ انہوں نے لال قلعے کی فصیل سے قوم کو اپنے خطاب میں کشمیر پالیسی کے باب میں خود ایک بہترین سجھاؤ دیا تھا کہ کشمیر سمسیا کا حل نہ گولی نہ گالی ہے، بلکہ کشمیر کاحل توکشمیر یوں کو گلے لگانے سے ہوگا ۔ واقعی ان کے بھاشن کا یہ اہم جملہ اپنی اہمیت ، افادیت، حقیقت کا گواہ بن کر کشمیر میں امن واَمان کی بہاریں پھرسے لانے کا موجب ہوسکتا ہے بشرطیکہ مودی جی اولین فرصت میں افسپا کو کشمیر سے واپس لینے کا ایک نقش ِراہ مرتب کر کے یہ تاثرد یں کہ وہ اہل کشمیر کو گلے لگانے میں پہل کر نے کو تیار ہیں ۔ قرین عقل بات یہ ہے کہ جس کسی روٹھے کو منانے، گلے لگانے ، اپنانے کا راستہ اختیار کیاجانا مقصود ہو ،تو ضروری ہے کہ اپنی بانہیں کھول کر آگے بڑھنے سے قبل فریق مخالف سے اُسے کوئی ترغیب یا بحالیٔ اعتماد کا کوئی ایسا اقدام نظر آئے تاکہ وہ یہ اخذ کر سکے کہ میرے لئے کھلی بانہوں سے استقبال ہوگا۔ افسپا کو کالعدم قرارد ینا اس بابت ایک تاریخ ساز اقدام ثابت ہوگا ۔