شمال مشرقی ریاستوں میگھالیہ اور تری پورہ میں افسپا کے خاتمے سے اس علاقہ کے عوام نے راحت کی سانس لی ہوگی، کیونکہ اس خطہ میں یہ قانون، جو سیکورٹی صورتحال میں بہتری لانے کے نام پر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی وجہ بن کر سامنے آتا رہا ہے، گزشتہ60برسوں سے نافذ تھا۔ ان ریاستوں میں افسپا 1958سے نافذ العمل تھا جب وہاں بائیں بازوں کی مسلح جد وجہد شروع ہوئی تھی۔ اگر چہ اروناچل پردیش میں ابھی آٹھ پولیس سٹیشنوں کے تحت آنے والے علاقوں میں اسکی تنسیخ باقی ہے لیکن چونکہ ایک شروعات ہوئی ہے لہٰذا کسی نہ کسی مرحلے پر یہ انجام کو پہنچ جائےگا۔ اس اقدام کےلئے ملک بھر کے حقوق انسانی گروپ اور کئی سیاسی حلقے کافی عرصہ سے زور دیتے آئے تھے اور کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی اس کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی ۔چنانچہ حکومت نے صورتحال میں بہتری کوبنیاد بناتے ہوئے یہ قدم اُٹھانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ بہر حال نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اس خطہ کے لوگوں کو راحت کی سانس نصیب ہوگی، جسکا ملک کے اندر سبھی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے ۔ جموںوکشمیر میں بھی گزشتہ 28برسوں سے یہ قانون نافذ ہے، جس کی وجہ سے فوج اور نیم فوجی دستے ریاستی انتظامی قوانین کی گرفت سے آزاد ہیں اور ریاستی حکومت کو فورسز اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سےپامالی حقوق کے واقعات پر کسی قسم کی کاروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔1990میں اس وقت کے گورنر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشنوں کے ذریعہ ڈسٹربڑ ایریا ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاورس ایکٹ کے نفاذ کے ساتھ ہی ریاست میں تواتر کے ساتھ اس پر مخالفانہ ردعمل سامنے آتا رہا ہے اور اسے عوام کے بنیادی حقوق کو معطل اور منسوخ کرنے کی کاروائی قرار دیتے ہوے اسکے خاتمہ کا مطالبہ کیا جا رہاہے، لیکن مرکزی حکومت حالات کی خرابی کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے یہ مطالبہ ہمیشہ مسترد کرتی آئی ہے اگر چہ عالمی حقوق انسانی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لیکر ملکی اور مقامی حقوق تنظیموں تک سبھی اس قانون کےخاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں مگر فوج اور دیگر نیم فوجی ادارے ان اختیارات سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ حالانکہ ماضی میں سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھی افسپا کے خاتمے کی حمایت کی تھی اور مرحلہ وار طریقے سے اسے مختلف اضلاع سے ہٹانے کی یقین دہانیاں کی گئی تھیں، لیکن اپنے دور حکومت میں ایسا نہیں کرسکے۔ ریاست کی موجودہ حکومت میں شریک اقتدار پی ڈی پی نے اگر چہ اپنے انتخابی وعدوں میں یہ قانون ہٹانے کے وعدے کئے تھے لیکن مرکزمیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے صاف انکار کے بعد انہیں بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران عوامی ایجی ٹیشنوں میں سیکورٹی اداروں پر شہریوں کےحقوق پامال کرنے کے سنگین الزامات لگتے آئے ہیں لیکن ریاستی حکومت کے اپنے ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے کوئی کاروائی نہیں کر پائی ہے۔ گزشتہ برس ضمنی پارلیمانی انتخاب کے دوران بیروہ علاقہ میں فاروق ڈار نامی ووٹر کو فوجی گاڑی کے آگےباندھ کر بستی بستی پھرانے کا واقعہ ساری دنیا میں توجہ کا مرکز بن گیا ، جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنا پڑا لیکن افسپا کی آڑ کی وجہ سے ریاستی حکومت اس واقعہ پر کوئی کاروائی نہ کرسکی حالیہ مہینوں میں شوپیان ضلع کے اندر پیش آئی ہلاکتوں اور گھروں کے اندر توڑ پھوڑ کے واقعات کے حوالے سے حکومت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر کچھ نہ کرپائی۔ اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا سیکورٹی کے نام پر عام شہریوں کےحقوق کے ساتھ کھلواڑ کرنا جمہوری مزاج ہوسکتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ شہریوں کے حقوق ایک مملکت کے قیام کا بنیادی حصہ ہوتےہیں لہٰذا ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ چونکہ عوامی مسئلہ ہے لہٰذا حکومت، خاص طور پر پی ڈی پی پر یہ فرض عائد ہوتا ہےکہ وہ اس ضمن میں کام کرے۔وزیراعلیٰ چونکہ عوامی نمائندہ ہیں ،لہٰذا اُن سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ان کیلئے سب سے پہلے عوامی مفادات ہی مقدم ہونے چاہئیں کیونکہ وہ عوام کی حمایت سے اقتدار میں ہیں۔عوامی مفادات کی آبیاری کا تقاضا ہے کہ پہلی فرصت میں اس قانون کی تنسیخ کا عمل شروع کیا جائے اور اس سلسلہ میں پی ڈی پی کو شریک اقتدار بی جے پی پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے۔عین ممکن ہے کہ فوج اس پر کھل کر اعتراض جتلائے تاہم یہ ریاستی سرکار کا کام ہے کہ وہ عوامی مفاد میں اسے بھی اس بات کیلئے تیار کرے کہ وہ اس قانونِ بے قانون کی جزوی واپسی کیلئے ذہنی طور تیار ہوجائے ورنہ یہاں حقوق انسانی کی پامالیاں جاری رہیں گی۔اگر بدلائو لانا ہے تو جرأتمندی لازمی ہے اور جرأتمندی کا تقاضا ہے کہ کابینہ سے اس قانون کی جزوی یا کلی منسوخی کے حوالے سے فیصلہ لیکر گورنر سے ایک اعلامیہ جاری کروایا جائے تاکہ تبدیلی کا آغازکیاجاسکے۔اگر شمال مشرق میں یہ تجربہ کیا جاسکتا ہے تو جموںوکشمیر میں کیوں نہیں ہوسکتا۔