Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
افسانے

افسانے

Mir Ajaz
Last updated: May 10, 2025 11:13 pm
Mir Ajaz
Share
36 Min Read
SHARE

صِلہ

افسانہ

عبدلمجید بھدرواہی
عالم دین ایسا شخص تھا جو گرمی، سردی اور بارش کی پرواہ کئے بغیر روزانہ مزدوری کرتا تھا۔ ان کا تعلق ایک غریب مگر شریف گھرانے سے تھا۔ اس کی زندگی کا اثاثہ صرف ایمانداری تھا۔ وہ صبح سویرے شہر کی زیر تعمیر عمارت کی طرف سویرے جاتا تھا۔ جہاں وہ مزدوری کرتا تھا۔
دن بھر کی تھکان دور کرنے کیلئے بازار میں ایک کتابوں کی دُکان کے تھڑے پر سستانے کیلئے کچھ دیر رکتا تھا ۔ یہ اس کا معمول تھا ۔ وہاں پر وہ گھر سے لائی ہوئی روکھی سوکھی سبزی کھا کر تھوڑی دیر آرام کرتا تھا ۔ گردیال سنگھ نامی کتاب فروش اسکی محنت، شرافت اور غربت کو روزانہ دیکھتا تھا ۔ وہ اسکی کسی طرح مدد کرنا چاہتا تھا ۔
گردیال سنگھ کتابوں کے ساتھ ساتھ اخبار بھی بیچتا تھا ایک دن گردیال سنگھ نے عالم دین کو کہا کہ بیٹا! میں چاہتا ہوں آپ یہ اخبار محلے کے گلی کوچوں میں آ بیچو۔ اس سے آپ کو تھوڑی بہت آمدنی ہوگی ۔ شام کو آکر حساب دینا تو میں اسکا معقول محنتانہ دوں گا ۔عالم دین کو یہ تجویز پسند آئی ۔ وہ روزانہ جب وقت ملتا تھا یہ اخبار گلی کوچوں میں بیچ آتا تھا۔
اس کام میں اس کا بیٹا مومن بھی اس کا ہاتھ بٹاتا تھا وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی کرتا تھا ۔
گردیال سنگھ کو عالم دین کا یہ کام پسند آیا اور اس نے اس کا بھروسہ بھی جیت لیا جب کبھی اسے کوئی کام ہوتا تھا تو وہ دکان پر عالم دین کو رکھ کر جاتا تھا ۔ گردیال سنگھ چونکہ بیمار بھی رہتا تھا لہٰذا اس نے دکان کا سارا کام دھیرے دھیرے عالم دین کو ہی سونپ دیا ۔ وہ گردیال سنگھ کو ہسپتال بھی لے جاتا تھا اور ضروری سودا سلف بھی اس کے گھر پہنچاتا تھا اور کبھی ایک پیسے کی ہیرا پھیری نہیں کرتا تھا ۔
عالم دین کی ایمانداری اور محنت دیکھ کر ایک دن گردیال سنگھ نے کہہ دیا عالم دین اب تم ہی یہ سب کاروبار دیکھ لینا ۔ اب میری صحت دن بہ دن جواب دے رہی ہے آپ چاہو تو میں یہ سب عدالت میں لکھ کر دینے کے لیے تیار ہوں تاکہ بعد میں تمہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔
گردیال سنگھ کی یہ محبت اور بھروسہ دیکھ کر عالم دین اور اس کا بیٹا مومن اور زیادہ تن دہی اور ایمانداری سے دکان کا کام کرنے لگے اور اچھے سے گردیال سنگھ کی خدمت کرنے لگے ۔ ایک دن گردیال سنگھ نے عدالت سے تحریر بنوا کر لائی اور تمام ملازمین کو جمع کیا تاکہ وہ انہیں یہ تحریر سنا سکے۔
تمام ملازمین کو بتایا کہ میں آج اتنا بڑا کاروبار چلا رہا ہوں اس میں آپ کی بھی محنت شامل ہے اور ہم سب نے مل کر ایک معمولی دکان کو کاروبار میں تبدیل کیا ۔لیکن آج کے بعد عالم دین آپ سب کا اور اس کاروبار کا مالک ہو گا ، بالکل میری طرح ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اسے وہی عزت دیں گے جو آپ مجھے دیتے تھے اور عالم دین بھی آپ سے اسی طرح پیش آئے گا جس طرح میں آتا تھا ۔ آپ جانتے ہیں کہ میرا کوئی بیٹا نہیں ہے لہذا میں عالم دین کو اپنا جانشین بناتا ہوں ۔ ایک مزدور نے سوال کیا لیکن مالک آپ نے اس شخص میں ایسا کیا دیکھا کہ آپ نے اسے ہم سب پر فوقیت دی جب کہ یہ ہماری برادری میں سے نہیں ہے ۔ گردیال سنگھ نے تھوڑا سا توقف کیا اور کہا ۔ میں فقط اس شخص کی ایمانداری اور ،محنت اور جذبہ ایثار سے متاثر ہوا ۔
���
ہمہامہ، سرینگر،
موبائل نمبر؛88250 51001

پگڈنڈیوں کی سیر

انشائیہ

ڈاکٹر گلزار احمد وانی
بہت سارے شہری لوگوں کو شاید ہی پگڈنڈی کے بارے میں جانکاری میسر ہوگی، پگڈنڈی اور گاؤں ان دونوں میں جب بھی کسی ایک کا نام لیا جاتا ہے تو دوسرے کا خیال خود بہ خود ذہن کے کینوس پر پھر جاتا ہے ۔پگڈنڈی گنجان گاؤں کی آبادی سے پرے ، کھیت کھلیانوں کی اور خوبصورت نظاروں کے درمیاں گزرتی ہوئی مٹی کا بنا ہوا ایک تنگ راستہ جس پر بہ مشکل ایک آدمی بیک وقت چہل قدمی کر سکتا ہے اور دوسرے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔اگر چہ پگڈنڈی بظاہر تنگ راستہ ہے مگر اس پر زندگی کے گاؤں کی جانب راہیں بڑھتی ہوئیں آپ کو ان لالہ زاروں میں خوش آمدید کر رہی ہیں جن کی یادوں اور وعدوں کو آپ اپنے سینے میں دفنائے ہوئے ہیں۔
پگڈنڈی پر سے گاہے بگاہے ان اجنبیوں سے بھی آپ ملاقی ہو جاتے ہیں جو پہروں آپ کے ذہن و دل کے پردے پر اپنی تصویر سے آپ کو اپنی جانب للچاتے ہوئے نظر آتے ہوں گے۔گاؤں سے پگڈنڈیوں کی اور جو بھی سفر طے کیا جاتا ہے اس میں کئی جگہوں پر پیڑ پودوں کی چھاؤں اور سرسوں کے پھولوں کے نظارے دیکھے جاسکتے ہیں جو دل کے کواڑوں کے اندر فوارے بہاتے ہیں۔اس کے دائیں بائیں جو بھی فصل کے نظارے ہیں وہ فرحت و انبساط سے مملو ہیں۔
جب آپ دیکھیں گے تو حیرت بھی ہوگی کہ کیسے گاؤں کی گوری حسینائیں اپنے سروں پر بھاری وزنی اشیاء کو اٹھا کر متوازن طور طریقے سے پگڈنڈیوں پر سے بل کھاتی ہوئیں خراماں خراماں گامزن ہوتی ہیں۔یہ نظارہ بھی کم دیدنی نہیں ہوتا ہے جب آپ شوخ حسیناؤں کو ان ہی پگڈنڈیوں پر سے گنگناتی ہوئیں سر پر زعفرانی ٹوکریاں لئے دیکھیں گے تو ضرور دعوت شوخ لئے آپ کو نظر آئیں گی جو من میں کئی طرح کی گدگدیاں جگا دیتی ہیں اور کئی خواب برہنہ پا لیئے پیش پا افتاد نظر آئیں گی۔
یوں بھی دیکھا جائے تو پگڈنڈیاں بھلا کسی کا کیا بگاڈ سکتی ہیں یہ تو آپ کے سرعت قدمی پر منحصر ہے کہ آپ کس رفتار سےاس پر سے گذریں گے۔ پگڈنڈیوں پر اگا ہوا مخملی سبز گھاس صبح کی سیر کا حظ بھی بھر پور عطا کردیتا ہے۔اس وقت کا سماں محیرالعقول سا معلوم ہوتا ہے جبھی وہ نرم ریشم سا سبزہ ذہن و دل کے چمن کو سیراب کرتا ہے۔
یہ بل کھاتی ہوئی پگڈنڈیاں گاہے اس اجنبی مخلوق سے بھی ملواتی ہیں جو زندگی کے سفر میں گھنے سائے کی مثل ہوں۔ جہاں اور جس کی چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھ کر انسان پل دو پل مسرتوں کے آنگن میں خوشیوں کی پریوں کے سنگ جھومتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اگر چہ پگڈنڈیاں ان منزلوں سے ہمکنار بھی کرتی ہیں جو انسان کی پہنچ سے بظاہر دور ہوتی ہیں مگر حسرتوں اور مسرتوں کو جگانے میں کئی طرح سے ممدوح ثابت ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار یہی پگڈنڈیاں ایک انسان کو جیسے لالہ زاروں کے بیچ میں سے نکال کر اسے اس جگہ پہنچاتی ہیں جہاں کی اس نے پہنچنے کی ٹھان لی ہوتی ہے۔یہی راہیں تنگ و تاریک جھاڑیوں میں سے نکال کر منزل ارفع تک لے جاتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو زندگی اور پگڈنڈی کی آپس میں کچھ مماثلتیں اور تفاوتیں بھی ہیں۔یہ جان کر آپ ششدر پڑ جائیں گے کیسے ! پگڈنڈی اگر ٹیڑھی ہی کیوں نہ ہو منزل تک لے جانے کو للچاتی ہے ۔زندگی اگر مفلسی سے بھاری کیوں نہ ہو پر اس بہانے سے زیست سے ملواتی ہے۔دوسری بات یہ کہ پگڈنڈی کے پیچ و خم سے سفر آساں نہیں رہتا اور زندگی کی کڑکتی دھوپ سے زیست کا سفر آساں نہیں رہتا۔ پگڈنڈی تنگ راستہ ہے جو انسان کو زندگی کی راہوں پر چلنا سکھاتی ہیں اور زندگی غموں کی بٹھی میں بٹھا کر جینا سکھاتی ہے۔اب اگر تفاوتوں کا ذکر نہ کیا جائے تو شاید انصاف نہ ہوگا۔ زندگی کے سفر کے خاتمے کا کسی کو علم نہیں ۔ پگڈنڈی تھوڑے سفر کے بعد آپ کو بڑی راہ سے ملوا کر خود کو بری الزمہ ہوجاتی ہے۔ پگڈنڈی کے پیچ و خم بخوبی دکھائی دیں گے جب کہ زندگی کے سفر کے اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ کی خبر نہیں۔یہ کسے معلوم کہ پگڈنڈی کبھی کبھار ایک موڑ پر یکساں ہو کر ناپید ہو جاتی ہے ۔پگڈنڈی کے پیچ و خم کو مٹی سے پُر کیا جا سکتا ہے جب کہ زندگی کے گھاؤ کو وقت کے سوا کون پُر کر سکتا ہے۔
عموما ًآپ نے دیکھا ہوگا کہ بڑے راستے ہی شہر کو جاتے ہیں پگڈنڈی بیچاری ایسے خواب دیکھ نہیں سکتی ہے مگر وہ راستے گاڑیوں کا دھواں اگلتے ہوئیں کالی کلوٹی بن چکی ہیں اور پگڈنڈی اُن کے مقابلے میں سر سبز و شاداب رہتی ہے جو پیروں کے لئے تھکان سے نجات کا باعث بھی بنتی ہے۔
اس راہ کا خیال آتے ہی دل و ذہن میں مناظر کے کونپل پھوٹتے ہیں ۔چند پل انسان بوجھ کے پتھریلے سفر سے سستانے کے لئے جیسے کہیں دور سرسوں کے پھولوں کی دیدہ گری کرنے نکلنے آجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کرشن چندر کے افسانوں کے رومانی اقتباس پڑھنا فرحت و انبساط کے خوبصورت سنگم کو جگادیتا ہے۔
جب تک آپ پگڈنڈی پر چلنے کی خواہش رکھتے ہیں تو برہنہ پا چلنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے اور بڑے بابو بن کر ہی آپ جب بھی گاؤں کے سیر و تفریح پر نکلیں گے تو بغیر پرواہ سوٹ بوٹ میں سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا کر دائیں بائیں کے نظاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔مگر جوں ہی پگڈنڈی کا سرا غائب پاؤ گے تو آپ کو پھر برہنہ پا پانیوں میں سے نکل کر ہی راستہ پانا ہوگا ، ورنہ آپ کی خیر نہیں اور یوں بھی وہ کہلانے کو سیر نہیں کہا جائے گا۔یہاں اس سفر میں چل کر دھوپ کا شائبہ کم کم ہی ہوگا بلکہ سایوں کا ایک نہ تھمنے والا قطاری جلوس آپ کی خوش آمد میں نظریں جمائے بیٹھا ہو ۔ بس اتنے پہ بس نہیں بلکہ آپ ہواؤں کی سرسراہٹ کی چاپ دل کی دھڑکنوں سے سماعت کریں گے۔ جب ہرے بھرے پودوں کی ہری بھری ٹہنیاں آپ کے چہرے کو چھو کر جائیں گی۔ آپ یوں محسوس کریں گے کہ آپ جنت کی وادیوں میں گھوم پھر رہے ہونگے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں لفظوں کا مرکب ہے “پگ ” اور” ڈنڈی” ۔راستے کی ڈنڈی اگر متوازن نہ ہو تو آپ جٹ سے دائیں بائیں کھیت میں گر جائیں گے پھر سنبھلنا آپ کو مشکل ہوگا اس لئے اسے پگڈنڈی کہا جائے گا جیسے میزان یا ترازو کی ڈنڈی کسی ایک طرف سے جھکنے سے دوسرے کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔
ویسے بھی یہ پگڈنڈیاں کئی مخلوق کی آماجگاہیں بھی ہیں۔جیسے چوہوں ، چیونٹیوں،مینڈکوں ،سانپ، چھپکلیوں، سپولوں،اور کیچوؤں وغیرہ کی اور اس پہ آہستہ خرامی کی چہل قدمی ہی وارد بوستاں کر سکتی ہیں وگر نہ میزان کی ڈنڈی یک طرفہ ہو کر انسانی حواس خمسہ کو حواس باختہ کر سکتی ہیں۔
پگڈنڈیوں پر سیر و تفریح کرنا کئی نظاروں کو دیکھنے کےمساوی ہے جیسے اگر آپ بوقت شام پگڈنڈی کے راہرو بنیں گے تو دائیں بائیں جگنوؤں کے ضیائی قافلوں سے ضرور ملاقی ہونگے،جن کی روشنی سے کاشانۂ چمن جگمگا اٹھے ہوئے ہیں ۔جن کی دودھیائی روشنی میں سارے کھیت نہلائے ہوئے ہیں اور ساری دھرتی چاندنی کا گھیلا ہوا بدن محسوس ہوتی ہے ۔اور گاہے ماہ جون کی وہ مینڈکوں کی قطار اندر قطار آوازیں اپنی اور کھینچ لیتی ہیں۔یہ گاؤں کی پگڈنڈیاں بھی نا ،جو من کو للچاتی اور سو طرح سے لجھاتی ہیں۔
اگر آپ حقیقت میں دنیا کو بٹا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، تو دور سے ان پگڈنڈیوں کا نظارہ کرکے دیکھ لیں ،تو ایسا لگتا ہے کہ بل کھاتی ہوئیں سانپ کی طرح رینگتی ہوئیں یہ مختلف النوع پگڈنڈیاں ہاتھ کی ریکھاؤں کی طرح دکھیں گی جو زمین کو تکونوں ،مربع ، تثلیث، اور مستطیل میں بانٹے ہوئیں دکھائی دیں گی۔اور یہ لکیریں اپنے اپنے حصوں میں گیہوں، سرسوں،مکئی،اور دالوں کی نت نئی فصلوں سے لہلہاتی ہوئیں ناچتی ہوئیں نظر آئیں گی ۔
وہ نظارہ اس سمے قابل دید اور قابل داد ہوتا ہےجب پگڈنڈیوں کے چاروں اور پانی ہی پانی ہوتا ہے ۔اور کسان لوگ انہیں پر مسند نشین ہو کر اپنی ٹانگوں کی کوشش سے پیروں سمیت پانی میں ڈبوئے ہوئے آپ کو ملیں گے اور مزدور لوگ بڑے ہی انداز شاہانہ لئے چائے کی چسکیاں لے کر زندگی کی نیرنگیوں میں ڈوبے ہوئے مست دکھینگے۔
پگڈنڈیاں فرحت و انبساط ہی نہیں بخشتے ہیں بلکہ کبھی کبھار جھگڑوں کی مؤجب بھی بنتی ہیں، جب ایک کسان کسی دوسرے پر الزام لگا کردکھیں گے کہ فلانی خود غرض عنصر نے میری پگڈنڈی کو ناجائز طریقے سے اپنے بیلچوں سے اکھاڑ کر اپنی زمین کے حصے میں ملا دیا ہے ۔پگڈنڈیاں زمیں کی سرحدی لائنیں ہیں ان کے ساتھ چھیڑ خوانی کرنا کسی پانی پت کے جنگ کو از بر کرنے کے مترادف ہے۔اور تو اور یہ سطح آب کو بھی برقرار رکھی ہوئیں ہیں ۔
���
موبائل نمبر؛7006057853

نوٹ

افسانہ

رئیس احمد کمار
گاڑی سے اتر کر نیاز نے ڈرائیور کو بیس روپیہ کا نوٹ تھما دیا۔ ڈرائیور نے بیس روپیہ کا نوٹ پکڑنے سے صاف انکار کیا کیونکہ نوٹ کا تھوڑا سا حصہ کٹ چکا تھا۔ حالانکہ اسے نظر انداز بھی کیا جاسکتا تھا مگرڈرائیور اپنی ضد پر قائم رہا۔
میں صبح سویرے گھر سے اس امید کے ساتھ نکلتا ہوں کہ دن بھر کام کرکے اپنے اور اپنے اہل عیال کے لئے کچھ کما سکوں اور جب سبھی سواریاں ایسے ہی کٹے اور پھٹے ہوئے نوٹ مجھے دیں گے تو میرے گھر کا چولہا جلانا بھی مشکل ہوگا۔
پندرہ بیس منٹ تک کشمکش جاری رہی یہاں تک کہ گاڑی میں سوار باقی سواریاں بھی ڈرائیور سے ہاتھ جوڑ کر مسئلہ سلجھانے کی درخواست کرتے رہے۔ صبح کا وقت تھا اور انہیں اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر پہنچنا تھا۔ آخر نیاز نے ہی ڑرائیور کو نیا اور کرارا نوٹ دے کر گھر کی طرف قدم بڑھا ددیئے۔
اڑے پر پہنچتے ہی گاڑی سے اتر کرڈڑرائیور سیدھے سگریٹ کی دوکان کی طرف چل دیا اور وہی نوٹ جیپ سے نکال کر سگریٹ خریدنے لگا۔
قاضی گنڈ کشمیر

آدم خور بھول بھلیاں

افسانہ

رئیس صِدّیقی
آدم خوربھول بھلّیاں! جی ہاں بھول بھلّیاں!!
میں لکھنؤ کی بھول بھلّیاں کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ اُس بھول بھلّیاں کے بارے میں بتانے جارہا ہوں جو آج سے لگ بھگ تین ہزار سال قبل، جزیرہ کوپٹ کے نزدیک بنی ہوئی تھی۔اس بھول بھلیاں میں ایک آدم خور جانور ’مینو ٹور‘‘ رہتا تھا۔ اسکے سر پر جنگلی بھینس کی طرح نکیلی، لمبی اور مضبوط دھار دار سینگیں تھیں ، جسم دریائی گھوڑے کی طرح بھاری اور دانت شیر کی طرح تیزتھے۔
مینو ٹور‘‘ سے ایک قدیم یونانی لوک کہانی جڑی ہوئی ہے ، جو اس طرح ہے:
ایک بار کا ذکرہے کہ جزیرہ کوپٹ کے ظالم حاکم ’’منپوس‘‘ کے بیٹے کا یونان جانا ہوا اور وہ کسی وجہ سے وہیں قتل کردیا گیا۔
اُس وقت یونان کا بادشاہ بہت کمزور تھا۔ اس لئے منپوس نے اس کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اس شرط پر معاف کیا کہ وہ ہر سال، بارہ نوجوان لڑکے لڑکیاں مینو ٹور آدم خور جانور پر بھینٹ چڑھانے کے لئے بھیجا کرے گا ۔ ؒٗ؁ بھیجا کریگاؒ۔
مرتا کیا نہ کرتا۔ اُس نے یہ شرط منظور کرلی اور شرط کے مطابق، وہ ہر سال بارہ معصوم لڑکے لڑکیوں کو موت کے حوالے کرتا رہا۔
یونان کے باد شاہ کا ایک بیٹا بھی تھا۔جب وہ جوان ہوا تو اس کو اس بے جا اور ظالمانہ شرط کا علم ہوا اور اسے اس بات سے بہت دکھ ہوا۔لہٰذا بہادر شہزادہ نے اسی وقت آدم خور مینو ٹور کو قتل کرنے کا عزم کیااور اپنے والد بادشاہ سے آئندہ کھیپ میں جانے کا اصرار کیا۔
پہلے تو بادشاہ اپنے شہزادہ کی اس ضد پر راضی نہ ہوا لیکن آخرکاراسے اپنے اکلوتے بیٹے کی ضد ماننی پڑی ۔
مقررہ وقت پر، شہزادہ اپنے گیارہ ساتھیوں کے ساتھ، جزیرہ کوپٹ کے حاکم کے سامنے حاضر ہوا ۔
اس وقت دربار میںحاکم کی بیٹی بھی ایک عالی شان کرسی پر رونق افروز تھی۔
شہزادی بھی یہ ظلم دیکھ کر اُکتا چکی تھی اور اس نے اس با ہمت اور نڈر شہزادہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ۔
چونکہ شہزادہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ لوگ آدم خور کے پاس ایک ایک کرکے بھیجے جائیںگے، اس لئے اس نے حاکم سے گذارش کی کہ سب سے پہلے اسے آدم خور کے حوالے کیا جائے۔
اس کی درخواست منظور کرلی گئی اور وہ قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔
جب شہزادے کاآدم خور پر بھینٹ چرھنے کا وقت قریب آیا تو شہزادی نے اسے رسّی کا ایک گولا دیا اور ہدایت کی کہ جب وہ بھول
بھلّیاں میں ڈھکیلا جائے تو وہ اس کا ایک سِرا دروازہ سے باندھ دے اور پھر دھیرے دھیرے رسی کو چھوڑتا ہوا اندر جائے اور جب وہ آدم خور جانور کو قتل کردے، تو اسی رسی کے سہارے باہر نکل آئے۔ اندر بہت بدبو ہوگی۔اس بدبو سے لوگ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ تمہیں اپنی ناک پر کپڑا باندھنا ہوگا۔ آدم خور کے نتھنوں سے بہت ڈرائونی آواز نکلتی ہے جسے سن کر اکثر دل کی دھڑکن بند ہوجاتی ہے اور اسکا شکا ر خود بہ خود مر جاتا ہے۔ اس طرح آدم خور کو آسانی سے شکار ملجاتا ہے ۔تمہیں ان سب باتوں کا خیال رکھنا ہوگا اور موقع ملتے ہی بڑی ہمت اور بہادری سے اسکی گردن پر پہ در پہ وار کرنا ہوگا۔
شہزادی کہتے کہتے رکی اور پھر ہاتھ بڑھا کر بولی کہ یہ چمکیلی نگ جڑی انگوٹھی پہن لو ۔اسکی چمک سے تم اسے اچھی طرح دیکھ سکو گے۔
جب شہزادہ رات کے وقت آدم خور بھول بھلّیاں کے اندر ڈھکیل دیا گیا تو اس نے شہزادی کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا شروع کیا۔
ابھی وہ اندھیری بھول بھلّیاں میں آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ اسے آدم خور کے سانس لینے کی کرخت آواز سنائی دی۔
اس نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور اسکی گردن پر لگا تار کئی وار کرکے اسے قتل کردیا۔ پھراسی رسی کے سہارے وہ باہر آگیا۔
اس طرح وہ بھول بھلّیاں میں گم ہونے یا بے ہوش ہونے یا آدم خور کا نوالہ بننے سے بچ گیا۔
اس کے بعد شہزادہ اپنے گیارہ ساتھیوں اور ساتھ ہی منپوس کی بیٹی سے شادی کر کے اپنے ملک یونان واپس آیا اور اپنے والد بادشاہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ اس نے شہزادی کی مدد کا بھی تفصیل سے ذکر کیا۔
بادشاہ بہت خوش ہوا ۔اس نے شہزادی سے پوچھا:
بیٹی، تمہاری دانشمندی سے نہ صرف وہ آدم خور درندہ مارا گیا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کئی معصوموں کی جان بھی بچ گئی۔
شہزادی نے بہت ادب لیکن اعتماد سے کہا:
بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہمیشہ مشکل حالات میں، تدبیر ، سوجھ بوجھ، سمجھداری ، ہمت اور حوصلہ کام آتا ہے ،نہ کہ غصہ اور طاقت !!!

���
( کہانی کار ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ و دلی اردو اکا دمی ایوارڈ یا فتہ پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم،افسانہ نگار ، شاعرو ادیبِ اطفا ل اور آکاشوانی؍ دور درشن دلی؍ بھوپال کے سابق آئی بی ایس افسر ہیں)
موبائل نمبر؛98101411528

میری پہچان

افسانہ

مختار احمد قریشی
وہ دور سے نمازی لگتا تھا کیونکہ وہ ظاہری طور پر عبادت گزار تھا مگر اندر سے دل کا کالا تھا۔
وہ ہمیشہ لوگوں کو حقیر سمجھتا تھا اور اپنے آپ کو سب سے برتر جانتا تھا۔
لباس میں سادگی تھی لیکن لہجے سے تکبر جھلکتا تھا۔
نماز کے بعد جب لوگ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے، وہ نظریں جھکا کر صرف دوسروں پر نظر رکھتا۔
کبھی کسی یتیم بچے کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا، مگر تقریروں میں اخلاص کے دعوے کرتا۔
اس کا نام حاجی حمید تھا، مگر محلے والے اُسے حاجی “فرصت خان” کہتے تھے۔
کہتے تھے، اس کے پاس دوسروں کو پرکھنے کا بہت وقت ہے، مگر خود کو سدھارنے کا وقت نہیں۔
اس کی داڑھی گھنی اور سفید تھی، لیکن زبان سے زہر ٹپکتا تھا۔
جب بھی کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہوتی، وہ شرکت سے کتراتا۔
محلے کی مسجد میں سب سے آگے صف میں بیٹھتا، لیکن بچوں کو مسجد میں شور کرنے پر تھپڑ مارا کرتا۔
ایک دن میں نے اُسے مسجد کے باہر ایک بوڑھے کو ڈانٹتے دیکھا۔
بوڑھا شخص جوتے غلط جگہ رکھ بیٹھا تھا، اور حاجی صاحب نے گویا قیامت برپا کر دی۔
میں نے آہستہ سے کہا۔ حاجی صاحب، نرمی ایمان کی نشانی ہے۔
وہ گھور کر مجھے دیکھنے لگا، جیسے میں نے کوئی کفر کر دیا ہو۔
تم کون ہوتے ہو مجھے سکھانے والے؟ وہ آگ بگولا ہوگیا۔
میں خاموش رہا، کیونکہ میں جانتا تھا، مکالمہ بے فائیدہ ہے۔
اس دن کے بعد میری نظر میں اُس کی تصویر بدل گئی۔
میں نے اُسے ایک ناپاک روح کے قالب میں عبادت کرتے دیکھا۔
محلے والے بھی اُس کے مزاج سے تنگ آ چکے تھےلیکن اُس کے رعب کے آگے سب خاموش تھے۔
ایک دن مدرسے کے بچے چندہ مانگنے آئے۔
حاجی صاحب نے اُنہیں جھڑک دیا، پہلے اپنے استاد کو سکھاؤ کہ چندہ مانگنا حلال ہے یا نہیں۔
بچے خوف زدہ ہو کر واپس چلے گئے۔
میں نے اُنہیں بلا کر تسلی دی اور اپنی طرف سے کچھ مدد دی۔
تب ایک چھوٹا بچہ بولا، انکل، کیا حاجی صاحب اللہ کے دوست ہیں؟
میں حیران ہو گیا۔
بیٹا، جو دل کو صاف رکھے، وہی اللہ کا دوست ہوتا ہے۔
بچے نے کہا، تو پھر حاجی صاحب کا دل کیوں کالا ہے؟
میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
اسی دوران مسجد کے باہر ایک مزدور بے ہوش ہو گیا۔
وہ کئی دنوں سے بیمار تھا، مگر دوا نہیں لے سکا۔
لوگ اُسے اٹھا کر مسجد میں لائے، شاید کوئی مدد مل جائے۔
حاجی صاحب نے کہا، یہ مسجد ہے، اسپتال نہیں۔
لوگ حیران رہ گئے۔
کسی نے ہمت کر کے کہا، نماز میں رحم کی بات کی جاتی ہے، عمل کہاں ہے حاجی صاحب؟
وہ غصے سے بولا، مجھے مت سکھاؤ دین۔
پھر خاموشی چھا گئی۔
میں نے اُس مزدور کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور کلینک لے گیا۔
ڈاکٹر نے کہا، وقت پر نہ آتے تو جان بھی جا سکتی تھی۔
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میں سوچنے لگا، دین کا اصل چہرہ کیا ہے؟
کیا یہ وہی چہرہ ہے جو حاجی صاحب دکھاتے ہیں؟
یا وہ جو خاموشی سے کسی کی جان بچا لیتا ہے؟
اسی لمحے میں نے فیصلہ کیا۔
میری پہچان حاجی صاحب کی طرح نہیں ہو گی۔
میری پہچان خدمت ہو گی، سچائی ہو گی، اور نرم دلی ہو گی۔
چاہے کوئی جانے یا نہ جانے، میں اپنے ضمیر کے سامنے سرخرو رہوں گا۔
یہی میری پہچان ہے۔
یہی میرے رب کی رضا ہے۔
���
بونیاربارہمولہ ،کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛8082403001

اُمید کا شگوفہ

افسانہ

سبدر شبیر
یہ اپریل کی ایک سہانی صبح تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع وادی کا ہر گوشہ بہار کے رنگوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ درختوں پر نئی کونپلیں نمودار ہو رہی تھیں اور سیب کے باغات میں سفید و گلابی پھولوں کی بہار تھی۔ غلام نبی اپنے چھوٹے سے کچے مکان کے باہر بیٹھا آسمان کی نیلاہٹ کو تک رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر وقت کی جھریاں، لیکن آنکھوں میں اب بھی اُمید کے چراغ روشن تھے۔ وہ ایک بوڑھا کسان تھا، جس کی زندگی کا اثاثہ یہی چند کنال زمین اور اس پر لگے ہوئے پھلدار درخت تھے۔
غلام نبی کی زندگی ایک لمبی جدوجہد کا نام تھی۔ جوانی میں اُس نے اپنے ہاتھوں سے یہ باغ لگایا تھا۔ ہر درخت کو اولاد کی طرح پالا تھا، پانی دیا، گُوڑی کی، وقت پر دوا چھڑکی اور اب، جب کہ اُس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے، اُسے اپنے اس باغ سے ہی اپنے بیٹے منتظر کی پڑھائی، بیٹی رفعت کی شادی، اور بڑھاپے کے دنوں کی آس بندھی ہوئی تھی۔
اُس دن باغ میں عجیب سی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ ہر شگوفہ جیسے وعدہ کر رہا تھا کہ اس بار فصل بہترین ہوگی۔ غلام نبی آہستہ آہستہ درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہر پھول کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اُس نے ایک پھول کو چھوا، پھر زیر لب مسکرا کر کہا:
“تو بھی کِھل گیا؟ ماشااللہ… اب کی بار، سب کچھ بہتر ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔”
مگر قدرت کی کتاب میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔
اُسی رات، جب آسمان پر چاند ہلکی روشنی بکھیر رہا تھا، موسم نے اچانک کروٹ لی۔ دُور پہاڑوں سے کالے بادل امڈ کر آئے۔ ہوا میں نمی اور خوف کی ملی جلی کیفیت تھی۔ پھر اچانک گرج چمک کے ساتھ تیز بارش شروع ہوئی، اور بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی۔ برف کے سخت گولے، جیسے آسمان سے نہیں، قہر سے برس رہے ہوں۔ ہر گولا کسی معصوم شگوفے پر وار کرتا، ہر ٹکراؤ کے ساتھ غلام نبی کا دل دہلتا رہا۔
اُس کے کچے مکان کی چھت ٹپک رہی تھی اور وہ رات بھر کانپتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکتا رہا۔
“یا اللہ رحم کر، یا کریم!” وہ بار بار دہراتا رہا۔
صبح ہوئی اور بارش تھم گئی، مگر فضا میں ایک غیر مرئی سناٹا چھا گیا۔ غلام نبی چھڑی سنبھالے باغ کی طرف روانہ ہوا۔ ہر قدم کے ساتھ اُس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔ باغ کے قریب پہنچتے ہی اُسے زمین پر سفید گولے اور بکھرے ہوئے پھول دکھائی دیئے۔ گویا کسی نے زندگی کے گلابوں کو چن کر مٹی میں دفن کر دیا ہو۔
درختوں کی شاخیں جھکی ہوئی تھیں، پتے ادھ کٹے، اور زمین پر وہ شگوفے بکھرے پڑے تھے جنہوں نے کل ہی مسکرانا سیکھا تھا۔ غلام نبی نے زمین پر بیٹھ کر ایک ایک پھول کو ہاتھوں میں لیا، جیسے کوئی باپ اپنے بچوں کی بے جان لاشیں دیکھے۔
“یہ سب ختم ہو گیا؟ میری محنت، میرے خواب؟” اُس کی آواز رندھ گئی۔
اُس لمحے وقت رک سا گیا۔ ہوا ساکت ہو گئی اور آسمان جیسے اُس کی فریاد کو سن رہا ہو۔ مگر قدرت خاموش تھی، وہی قدرت جس نے ایک لمحے میں اُس کی سالوں کی محنت کو روند ھ ڈالا تھا۔
لیکن، مٹی میں دبے شگوفوں میں ایک ننھی سی کلی، جو مکمل کچلی نہ تھی، اُس کی نگاہوں میں اُمید بن کر چمکی۔ اُس نے نرمی سے اُسے چھوا، وہ کانپی مگر زندہ تھی۔ ایک سانس، ایک نازک دھڑکن باقی تھی۔ اُس لمحے غلام نبی کو یوں لگا جیسے زمین نے اُس کے کان میں سرگوشی کی ہو:
“جب تک ایک شگوفہ زندہ ہے، خواب مر نہیں سکتے۔”
وہ دھیرے سے اُٹھا۔ اُس کے چہرے پر افسوس کی جگہ عزم کا رنگ ابھر آیا۔ اُس نے زمین پر ہاتھ رکھا، جیسے پھر سے عہد کر رہا ہو۔
“اے زمین، تُو میری ماں ہے۔ اگر تُو نے ایک بھی شگوفہ بچا لیا ہے، تو میں پھر سے شروع کروں گا۔ بیج بوؤں گا، پانی دوں گا، دعا کروں گا۔”
گھر لوٹ کر اُس نے اپنے بچوں کو آواز دی، “منتظر، رفعت، آؤ۔ ہمیں باغ کی دیکھ بھال کرنی ہے۔ جو گرے ہیں، اُنہیں سمیٹنا ہے۔ جو بچے ہیں، اُنہیں بچانا ہے۔”
بچے حیرت سے اُسے دیکھنے لگے۔
“ابا، ساری فصل تباہ ہوگئی، ہم کیا کریں گے؟” منتظر نے دھیرے سے پوچھا۔
غلام نبی نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا،
“بیٹا، ہار ماننے والوں کے نصیب میں صرف مٹی ہوتی ہے، لیکن مٹی سے اُٹھنے والوں کے قدموں تلے یہی زمین جنت بن جاتی ہے۔”
منتظر نے پہلی بار اپنے باپ کو یوں بولتے دیکھا۔ اُس لمحے اُسے اپنے ابا ایک معمولی کسان نہیں، ایک بہادر سپاہی لگے۔
چند دن بعد، غلام نبی نے پھر سے باغ کی صفائی شروع کی۔ ٹوٹی شاخیں کاٹیں، پودوں کو سہارا دیا، مٹی ہموار کی۔ اور وہ ایک شگوفہ جو زندہ بچا تھا، اُس نے پھول بننے کا سفر دوبارہ شروع کیا۔ غلام نبی روز اُسے دیکھتا، مسکراتا، اور کہتا:
“تو نے مجھے ہارنے نہ دیا۔ تُو میرا شکر ہے، تُو میری امید ہے۔”
مہینے گزرے، موسم بدلا، اور پھر وہ دن بھی آیا جب وہ درخت، جنہیں غلام نبی نے مرا ہوا سمجھا تھا، پھر سے ہرے بھرے ہو گئے۔ اُس کی محنت، اُس کی اُمید، اور اُس ایک کلی نے سب کچھ بدل دیا تھا۔
اُس سال فصل کم تھی، مگر دل بھرا ہوا تھا۔ غلام نبی نے وہ سیب اپنے ہاتھوں سے توڑے، اپنے بیٹے کو پکڑائے اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا:
“یا اللہ، تیرا شکر ہے۔ تیری آزمائش سخت تھی، مگر تُو نے میری اُمید زندہ رکھی۔”
���
اوٹو اہربل کولگام
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
کئی دن کی معطلی کے بعد سرینگر ایئرپورٹ پرکل سے پروازوں کی بحالی کا امکان
تازہ ترین
ہندوستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز آج بات چیت کریں گے
برصغیر
وزیر اعظم مودی کی رہائش گاہ پر اعلیٰ سطحی اجلاس جاری
تازہ ترین
سری نگر جموں قومی شاہراہ ہنوز بند، بحالی کا کام جاری
تازہ ترین

Related

افسانے

جنون کہانی

May 3, 2025
افسانے

مصوّر افسانہ

May 3, 2025
افسانے

تنہائی کا آسیب افسانہ

May 3, 2025
افسانے

بڑا شریف آدمی ہے انشائیہ

May 3, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?