’’کالا بھائی! ہمیں اپنے اتنے بڑے علاقے میں تھوڑی سی جگہ دے دو۔‘‘
لیکن کالا سمجھتا تھا کہ اگر آج انہیں تھوڑی سی جگہ دے دی تو ممکن ہے آہستہ آہستہ پورے علاقے پر یہ قبضہ کر لیں۔ یہ خیال آتے ہی وہ اتنے زور سے غرایا کہ وہ سارے دم دبا کر بھاگ گئے۔ ایک چھوٹا کتا جس کا باپ مر چکا تھا اور اس کا گھر کالا کے علاقے میں پڑتا تھا، کو اپنے باپ کا گھر بہت یاد آرہا تھا۔ ایک رات وہ چپکے سے اس کے علاقے میں داخل ہو گیا لیکن صبح ہی کالا کی نظروں نے اسے دیکھ لیا اور اس پر ٹوٹ پڑا۔ چھوٹے کتے کا سارا بدن لہولہان ہوگیا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنی ماں کے پاس بھاگا۔۔۔۔۔۔
’’ارے کتو! میرے معصوم اور یتیم بچے کو اس کالا کمبخت نے مار ہی ڈالا۔ ہائے میرا بچہ!‘‘ بوڑھی کتیا کی فریاد نے جوان کتوں کے خون میں گرمی بھردی۔
’’یہ ظلم ہے، زیادتی ہے۔ اب ہم سر نہیں جھکائیں گے۔ ہم بزدل نہیں۔ امن پسند ہیں۔ اس لیے یہ کیس سپریم کے سامنے رکھیں گے۔‘‘
انہوں نے ایک شاندار جلوس نکالا جس کا اختتام سپریم کے صدر دفتر کے سامنے ہوا۔ ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی جس میں سارے ممبر شریک ہوئے اور کالا کے خلاف قرار داد پاس کی گئی لیکن کالا کے پاس ویٹو پاور تھا، اس لیے قرار داد ٹوٹ گئی۔‘‘
مندرجہ بالا پیراگراف میں محسوس کیجیے کہ افسانہ نگارنے کتے کے کردار کے ذریعے موجودہ سیاسی ماحول کی عکاسی کر دی ہے۔ میں سمجھتی ہوں دیگر باتوں سے قطع نظر بطور علامت کتے کی جون میں انسانی خصلت کو آشکار کرنا ہی کہانی کی خوبی ہے۔
اس کہانی کے علاوہ ان کی دیگر کہانیاں بھی استعاراتی اور علامتی انداز میں پیش کی گئی ہیں مگر بین السطور بہت کچھ سمجھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ علامتی افسانہ لکھنا روایتی افسانے کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔ بعض افسانہ نگار کہانی میں علامت فیشن کے طور پر اتنے بھونڈے پن سے استعمال کرتے ہیں جو خوبی کے بجائے خامی بن جاتی ہے۔ بہرحال کہانی میں علامت سلیقے سے استعمال کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
وحشی سعید نے ’کب آئے گا وہ سقراط، وہ صبح کب آئے گی، نامکمل تصویریں، گھاس کا تنکا‘ وغیرہ میں علامتوں کو استحکام بخشا ہے۔ قمر احسن اور اکرام باگ کی کہانیوں میں علامتی رویہ اکثر سرکشی کی حدیں چھو لیتا ہے اور یہ رویہ اس قدر جارحانہ ہوتا ہے کہ مفاہیم کے دھاگے بری طرح الجھ کر ترسیل کی ناکامی کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تحریر میں معنویت تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’’اقلیما سے پرے ہو‘‘ (اکرام باگ) اور سلیمان سربہ زانو اور صبا ویران (قمر احسن) کہانیوں کا شمار میں ایسے ہی افسانوں میں کرتی ہوں اگرچہ ان کا لہجہ منفرد اور اسلوب جدید ہے لیکن الفاظ کو لغوی معنی میں استعمال نہ کر کے انہوں نے استعارے کی ایسی دھند پھیلا دی ہے جو ترسیل میں دقت کا سبب بن گئی ہے۔ اس کے برعکس وحشی سعید ایسی علامتیں استعمال کرتے ہیں جن کی ترسیل میں قاری کو کسی بھی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
’قلم‘ اگرچہ علامتی کہانی ہے لیکن اس میں پوشیدہ علامت بہت واضح ہے جو مصنف کا تعارف بن جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے چند سطور:
’’میں نے ایک قلم خریدا جس کی قیمت دو روپئے تھی۔ نفسیاتی طور پر انسان نئی چیز کو خریدتے ہوئے عجیب سی خوشی محسوس کرتا ہے۔ گھر آتے ہی میں نے قلم بھائیوں کو دکھایا تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر وہ بھی تقاضا کرنے لگے۔
نئے قلم کو پاکر دل میں نئے نئے خیالات آنے لگے۔ چونکہ خیالات کا بہائو تیز تھا لہٰذا قلم بھی تیزی سے کاغذ پر چلنے لگا لیکن چھ صفحات ہی مکمل ہوئے تھے کہ اس نے آگے چلنے سے انکار کر دیا۔ یکایک اس انکار کی تاب میرے خیالات نہ لا سکے اور منتشر ہونے لگے۔ میںنے غصے سے قلم کی جانب دیکھا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ پر ہنس رہا ہو۔‘‘
علامت کے پردے میں مصنف بذات خود شریک ہے۔ درمیان میں کئی برس کے بعد دوبارہ ادبی دنیا میں وارد ہونے کی تمام داستان اس مختصر افسانے میں سمونا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ یہ افسانہ نہ صرف زندہ رہنے والا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بھی۔ ’رشتۂ تصویر‘ افسانے میں وحشی سعید نے ہندو عقیدے کے مطابق ’پنر جنم‘ کو کہانی کا روپ عطا کیا ہے۔ اس کہانی کا اصل حسن اس کا اختصار ہے جسے افسانہ نگار نے بڑا کینوس عطا کر دیاہے، اگر وہ چاہتے تو اس موضوع کو پھیلا کر ناول یا ناولٹ بنا سکتے تھے۔ لیکن شاید پھیلائو سے کہانی کے گھٹائو میں کمی واقع ہو جاتی اور مخصوص تاثر چھوڑنے میں ناکام ہو جاتی۔ قاری دیر تک کہانی کی ہیروئن اور ہیرو کے کرداروں میں کھویا رہتا ہے اس کے ذہن میں مختلف خیالات ابھرتے ہیں، تجسس بیدار ہوتا ہے۔ ہیرو کا ہوائی حادثے میں ہلاک ہونا اور ہیروئن کا زندہ رہنا ہی کہانی کے تاثر کا سبب ہے اور قارئین کی سوچوں کا دائرہ وسیع ہوتا ہوا ذہن میں سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ اور یہی کہانی کا اصل حسن ہے، ہیرو ہیروئن کا ملاپ کہانی کو بے جان بنا سکتا تھا۔
وحشی سعید کے مزاج میں جستجو کا مادہ ہے اور اس جستجو کی وجہ سے انہیں ہر دو میدان میں قدم قدم کامیابی ملی ہے۔
’سائے کی لاش‘ افسانہ بڑے نپے تلے انداز میں آگے بڑھتا ہوا فطری انجام تک پہنچتا ہے۔ یہ افسانہ اچھے افسانوں کے زمرے میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ ’تقدیر کے رنگ‘ تین نوجوانوں کی زندگی پر مشتمل کہانی ہے۔ اس میں مصنف نے کرداروں کے ذریعے نوجوان نسل میں ترقی کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ محنت اور ایمانداری سے بھی دولت کمائی جا سکتی ہے۔ شرط سچی لگن ہے۔ کہانی میں کہیں نہ کہیں مصنف موجود ہے اگرچہ ابتدا میں شر کی کارفرمائی ہے لیکن آخر میں خیر کا جذبہ حاوی ہو جاتا ہے۔ کہانی میں مصنف کی موجودگی افسانے کو جاندار بناتی ہے۔ وحشی سعید جس خطۂ زمین سے وابستہ ہیں اس کی ہر شے سے ذہنی طور پر وابستہ ہیں اور اس وابستگی کو اپنے افسانوں میں ایک باشعور اور ذمے دار افسانہ نگار کی حیثیت سے مختلف شیڈز میں پیش کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمین ان کے نزدیک ایک ایسا استعارہ ہے جسے انسان کی باطنی اور خارجی دنیا تشکیل دیتی ہے۔ کشمیر سے محبت ان کی نس نس میں رچی ہوئی ہے۔ میں ان کے افسانے پڑھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ درجنوں افسانوں میں چند ہی افسانے ایسے ہیں جن میں کشمیر کے بعض مقامات، گلی محلوں، باغات اور سبزہ زار کا ذکر ہے لیکن کوئی بھی فنکار اپنی مٹی سے پہلو تہی کر ہی نہیں سکتا۔ ’کب آئے گا وہ سقراط، وہ ہار گیا، جوا‘ اور ’ترک‘ میں کشمیر کا حسن، وہاں کے فنکاروں کے ہاتھوں کی صناعی، ان کی تیار کردہ خوبصورت شالیں، دوشالے، قالین اور گلدان وغیرہ میں ملاحظہ کیجیے:
’’میں وہاں کا رہنے والا ہوں جہاں سرسبز وادیاں ہیں، صاف شفاف پانی کی بے شمار جھیلیں ہیں، رنگ رنگ کے پھولوںکے لاتعداد باغیچے ہیں، میٹھے پانی کے بہتے ہوئے جھرنے ہیں۔ ہزاروں پرندے چرندے ہیں، گاتی ہوئی بیلیں ہیں، اڑان بھرتے ہوئے خوبصورت کبوتر ہیں، وہاں لوگ دن کو چراغ جلاتے ہیں اور رات کو سورج اگاتے ہیں، مرگ کو حیات اور حیات کو مرگ کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ شہر جو اونچی اونچی پہاڑیوں کے گھیرے میں ہے۔ ایک پہاڑی کوہ ماراں کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
(کب آئے گا وہ سقراط)
’’حضور یہ کشمیری شال ہے۔ اس پشمینہ کی شال کا اون لداخ سے آتا ہے۔ کشمیر کے لوگ اس اون کو کاتتے ہیں۔ پھر ایک مصور کی طرح اپنے ہاتھوں سے نقش و نگار پھیلا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اس شال پر بنے ہوئے پھول کشمیری لڑکیوں کی طرح ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔ کتنی محنت کرنی پڑتی ہوگی اس شال بنانے والے کاریگر کو۔ یہ شال بھی لوں گا۔ اس شال کو بھی الگ رکھو۔‘‘
’’یہ پیپر ماشی کا گلدان ہے اس پر جو انسانی ہاتھوں نے جانور بنائے ہوئے ہیں یہ سب جانور کشمیری جنگلوں میں پائے جاتے ہیں۔ وہ دیکھئے قدرت کے اس جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے عشق اور حسن ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے ہیں۔ وہ تمام عالم سے بے خبر ہیں۔ مونالیزا کی طرح اس پیپرماشی کے گلدان کی قیمت لاکھوں روپے نہیں۔ یہ گلدان تو صرف تین روپے کا ہے۔‘‘
’’اتنا سستا، کیا ہوا ہے تم کشمیریوں کو جو اپنی چیزوں کو اس طرح اونے پونے داموں میں فروخت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ قدر کرو اپنے فن کی۔ دوکاندار جانتے ہو میں ایک کشمیری لڑکی سے شادی کروں گا۔ وہ جب اس کشمیری قالین پر بیٹھے گی اور یہ کشمیری شال اوڑھے گی، اپنے ہاتھوں سے اس پیپرماشی کے گلدان میں پھولوں کو رکھے گی تب مجھے محسوس ہوگا کہ سارا کشمیر میرے گھر میں سمٹ آیا ہے۔‘‘ (وہ ہار گیا)
’’امیراکدل کی اونچی اونچی عمارتوں نے اس کو حیرانی کے سمندر میں ڈبو دیا۔ یہاں اس کو اپنے گائوں کی کوئی گھاس کی جھونپڑی نظر نہیں آئی، یہ تو سرینگر کا امیرا کدل تھا۔ یہ تو بڈشاہ پل تھا۔ جہاں پر رنگین ہوا میں لہراتے ہوئے سائے اس کو نئی تہذیب کا را گ سنا رہے تھے۔
ریزیڈنسی روڈ کی دوکانوں میں سجے ہوئے کشمیری قالین۔۔۔۔۔ کشمیر کے روشن مستقبل کی ضمانت دیتے تھے۔ ڈل گیٹ کا راستہ ڈل جھیل کی طرف جا رہا تھا۔
وہ گائوں کا رہنے والا تھا اور مصنوعی چیزوں سے زیادہ قدرت کے نظارے میں کھونے کا عادی تھا۔ ڈل جھیل تو اس کے لیے دلچسپی کا سامان تھی۔ وہ کھو گیا۔۔۔۔۔ قدرت کی حسین جھیل کی گہری خاموشی اور سکون میں۔‘‘ (جوا)
’’ترک‘‘ کہانی کی بنیاد عشق و محبت پر مبنی ہے۔ یہ کہانی محبت بھرے دلوں میں گدگدی پیدا کرتی ہے۔ سطر سطر پڑھیے سرخوشی کی سی کیفیت سے دوچار ہونا شرط ہے۔ مصنف کا دلکش پیرایہ بیان قاری کو اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے۔ اس کہانی کا اختتام چونکانے والا ہے۔
وحشی سعید کو خداوند کریم نے پرواز قلم کی قوت سے نوازا ہے۔ جو کسی عطیہ یا انعام سے کم نہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ مصنف نے اپنی کہانیوں میں مقصدی اور اصلاحی پہلو کے ساتھ تفریحی پہلو کا بھی التزام رکھا ہے۔ واقعات کی بہترین ترتیب، کرداروں کی اٹھان اور مکالموں کی برجستگی ایسی خوبیاں ہیں جو ان کے افسانوں کو اعتبار بخشتی ہیں۔ ان کے درجنوں افسانوں میں شاید ہی کوئی ایسا افسانہ ہو جسے محض انداز نگارش کی کرشمہ سازی کہا جا سکے۔ یا صرف تفریحی اور لذتیت کے اظہار کا ذریعہ۔ انہوں نے ہر افسانے کی بنت کسی حادثے، واقعہ یا تجربے کی بنیاد پر کی ہے ان کے بعض افسانوں میں جرأت اظہار اور بے باکی اس حد تک ہے کہ کہیں کہیں عریانی حاوی ہو جاتی ہے، یہ عریانی عصری شعور کی دین ہو سکتی ہے۔ عصری آگہی وحشی سعید کے بیدار شعور کا ایک حصہ ہے جو افسانوں کو ایک نئی سمت عطا کرتا ہے۔ ( ختم شد)