نکتہ نواز
نیچے کی منزل میںرہنے والے ہمارے کرائے دار غلام احمد نے اپنی آخری سانس لیتے وقت اپنی بیٹیوں کے نکاح کی ذمہ داری میرے اباجی کے سپرد کر دی تھی۔شادی کے کچھ دن قبل اباجی نے پورے گھرکی صفائی کروائی تاکہ اُن کے مہمانوں کو کسی بھی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اماں، اباجی اور میںایک ہی کمرے میں شیفٹ ہو گئے۔
میں دل سے اُن کے ہر اِک حکم کو تسلیم کر رہا تھا ۔میرے اباجی میرے لئے میرے اباجی ہی نہیں بلکہ میرے رفیق و شفیق اُستاد بھی تھے ۔دینی زندگی سے لے کر دُنیاوی زندگی تک میں اپناچھوٹا سے چھوٹا فیصلہ اُن سے مشورہ لے کر کرتاتھا۔صرف میں ہی نہیں محلے کے سارے لوگ اپنے مسائل لے کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے لیکن میرے پیروں تلے سے زمین اس وقت کھسک گئی جب اماں سے سُنا کہ یہ شادی صرف مذہبی رسوم کے ساتھ ہی نہیں ہو رہی بلکہ یہاں گانا بجانا اورشور شرابا بھی ہونے والا ہے ۔ ’’کیا؟ ۔۔۔ مولوی کے گھر پر گانا بجانا۔ ۔ ۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔‘‘ میرے منہ سے بے خیالی میں یہ جملہ نکلا تو کمرے میں آتے ہوئے اباجی نے یہ بات سُن لی تھی۔ وہ بہت تھک گئے تھے اور کمرے میں آتے ہی میں نے تکیہ اُٹھا کر اُن کے پشت کے پیچھے رکھ دیا۔ شاید میں اُس دن زندگی میں پہلی دفعہ اُن سے ناراض ہو ا تھااور اُن کے فیصلے پر افسوس کر رہا تھالیکن اُن کے سامنے آواز اُونچی کرنے کی حسارت نہ کر سکا۔معلوم نہیں کس طرح اُنہوں نے اُن لوگوں کو اپنے گھر میں ہنگامہ آرائی کرنے کی اجازت دی تھی۔میری بھی دو دو بہنوں کی شادیاں ہوئی تھیں لیکن ہم نے تو انہیں سادگی سے رخصت کر دیا تھا۔وہ لوگ یتیم بھی تھے اور غریب بھی۔اب بھلا اِنکو اِن سب چیزوں کی کیا ضرو ر ت لاحق ہوئی تھی۔میں دل ہی دل میں بڑ بڑا رہا تھا تو اباجی نے میری ناگواری کو محسوس کرلیا اور کہنے لگے’’برخوردار! تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔میں نے یہ سب روکنے کی کوشش نہ کی ہوگی؟میں نے یوں ہی اِنہیں اِس سب کی اجازت دی ہوگی؟ ۔۔۔جب میں نے اعتراض ظاہر کیا تو کہنے لگے کہ کسی اور جگہ شادی کی تقریب کا اہتمام کریں گے۔۔۔اب بھلا تم ہی بتائو کل شادی ہے اور ایک ہی دن میںکیسے کسی اور جگہ کا انتظام ہو جاتا ۔۔ ۔ اور اگر انتظام نہ ہو تا تو شادی ملتوی بھی ہوسکتی تھی۔‘‘
میں تنگ آ کر بے ساختہ بول پڑا ’’تو ہو جانے دیتے ملتوی۔۔۔جب آس پاس کے لوگ یہ شور شرابہ دیکھیں گے تو کیاکہیں گے۔ ‘‘وہ جھٹ سے بول پڑے’’ایسا نہ بولو بیٹا! خدا نہ کرے ایسا ہو۔۔۔میری دعا تو مالک سے یہی ہے کہ دونوں بچیاں جلد از جلد اپنے اپنے گھر خوشی خوشی رخصت ہوجائیں۔‘‘ میں اُن کے فیصلہ پر اپنے دل کو متفق کرنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک اُنہوں نے شفقت سے بھرا ہوا ہاتھ میرے سر پر پھیر ااور نرم لہجے میں مسکرا کرکہنے لگے ’’بیٹا!اللہ بڑا نکتہ نواز ہے، نہ جانے کون سے نکتے پہ بخش دے۔‘‘
شرمندگی
آج شادی کے پندرہ سال بعد اُس کی آنکھوں میںشرمندگی کی ایک جھلک دکھائی دے رہی تھی۔جب وہ اپنی بہن کے زخموں پہ مرحم کر رہا تھاتو اُسے اپنی بیوی کے درد کا احساس ہوا۔اپنی پھول جیسی بہن کا حال دیکھ کروہ اپنے بہنوئی کو گالیوں سے نواز رہا تھاتو یاد آیا کہ کوئی اُسکو بھی اِسی طرح۔
قسمت
آج وہ بیوہ ہو کر، آنکھوں میں نمی لئے،دوبچوں کے ساتھ مستقل طورپر یہاں رہنے آئی تو میرے کلیجے پر جیسے چھریاں چلنے لگیں۔میں ہی تھا جو بیٹی کی محبت میں جوش میں آکراکثر کہتا تھاــ ’’اُس کی خوشی کی خاطر پوری دُنیا سے لڑبھڑ جائوں گا۔‘‘ مگر قسمت۔۔۔۔اب قسمت سے کیسے لڑوں؟