اداکار
فلم ’’خون‘‘ کی شوٹنگ ہورہی تھی۔
سین کچھ اس طرح تھا… ایک پارک میں خوشی کا ماحول ہے، بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی دنیا میں گم ہے، ہر کوئی لطف اندوز ہورہاہے۔ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوتا ہے اور چاروں طرف لاشیں بکھر جاتی ہیں۔ کچھ لوگ زندہ بچ جاتے ہیں۔ ان میں ایکٹر ونود کمار بھی شامل ہے۔ وہ زخمی ہوا ہے مگر ہوش میں ہے۔ اُسے چاروں طرف دیکھ کر گٹھنوں کے بل بیٹھ کر کچھ ڈائیلاگ بولنے ہیں۔
فلم کے ڈائریکٹر نے یونٹ کے سبھی کارکنوں اور ایکسٹرا اداکاروں کو سین کے بارے میں ہدایت دی اور ونود کمار کو خصوصی طور پر سمجھایا کہ ڈائیلاگ کس طرح بولے…
لائیٹس کیمرہ… اب سب کچھ تیار ہے۔ ایک سپاٹ بوائے نے کاغذ کا پرزہ ونود کمار کے ہاتھ میں تھما دیا کیوں کہ اُس کا فون آف تھا۔ ونود کمار نے کاغذ کا پرزہ کھولا اور پڑھا…اُسی وقت ڈائریکٹر کی بھاری بھرکم آواز گھونجی… ’’ایکشن…‘‘
’’نہیں…!‘‘ونود کمار کے حلق سے ایک دلدوز چیخ بلند ہوئی۔ ’’نہیں …نہیں …نہیں‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اُسکی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات شروع ہوئی۔ ’’ظالمو یہ کیا کیا تم نے… کیا ملا تم کو ایسا ایسا کرنے سے … یہ دھماکے کرواتے ہو۔ یہ دیکھو کسی کی ماں، کسی کی بیٹی، کسی کا باپ، کسی کا شوہر، کسی کی بیوی، کسی کا بیٹا… دیکھو دیکھو … مرگئے۔ کیوں؟ کیوں؟ دیکھو کس طرح زخمی تڑپ رہے ہیں۔ کیا تم لوگوں کو اس درد کا احساس نہیں ہے۔ لاشوں کے سوداگرو… خون کے خریدارو… کتنے ظالم ہو تم سب… تم انسان نہیں ہوسکے…تم لوگ وحشی درندے ہو… ہاں ہاں وحشی درندے… تم لوگوں کا کوئی مذہب نہیں‘‘…آ…آ… آ… وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے جارہا تھا…
’’کٹ …کٹ … کٹ‘‘
ہر طرف تالیوں کی گونج سنائی دی۔
ڈائریکٹر نے ونود کمار کو گلے سے لگایا…’’ونود، آج تو نے دکھا دیا کہ توپیدائشی ایکٹر ہے۔ تو نے کمال کردیا۔ تو نے سین میں کھو جانے کے بعد کچھ ایسے اضافی ڈائیلاگ بولے جو اسکرپٹ میں تھے ہی نہیں۔ ویل ڈن مائی بوائے… مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ تم نے اِتنی بہترین اداکاری کی، آج تو نے فلم کے ہیرو کو بھی مات کیا۔ میری اگلی فلم کے ہیرو تم ہو۔‘‘
’’سر مجھے جانا ہے‘‘ ونود کمار نے آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
’’یس یس …گو گو… تم جائو…جائو۔ تمہارا رول ختم ہوا۔ جائو… ایجنوائے یور سیلف!
ونود کمار دوڑنے لگا۔
اُس کی بند مٹھی میں جو کاغذ کا پرچہ تھا۔ اُس پر لکھا تھا ’’تمہاری بیوی اور دو بچے ایک بم دھماکے میں مرچکے ہیں، اُن کی لاشیں پولیس کنٹرول روم میں ہیں‘‘۔
رابطہ: ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر
موبائل نمبر نمبر;؛9419004094
ماتم
سیلاب نے ہر طرف تباہی مچادی تھی۔ ہر طرف پانی ہی پانی نظر آرہا تھا۔ محلے کے سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا چکے تھے۔ صرف حاجی امیر الدین کا کنبہ ابھی پانی میں پھنسا ہوا تھا۔ حاجی سخت بیمار تھا، اس لئے اُس کے بیٹے عارفؔ نے سوچا تھا کہ دو چار روز اور انتظار کیا جائے تاکہ باپ کی طبیعت سدھے جائے۔ مگر اب پانی دوسری منزل کی کھڑکیوں کو چھورہا تھا۔ اب جان کا خطرہ لاحق ہورہا تھا۔ بوڑھی ماں سکینہ رو رہی تھی۔ عارف پریشان تھا۔ مگر اُن کی بہو رضیہ اُن کو دلاسہ دے رہی تھی ۔ رضیہ ان کی چہیتی بہو تھی۔ وہ سب کا خیال رکھتی تھی اورساس کا تو حد سے زیادہ خیال رکھتی تھی۔ وہ پانچ امراض میں مبتلا تھی، اس لئے اُسے دن میں چھ بار دوائیاں لینی پڑتی تھیں۔ رضیہ نے ان دوائیوں کو ایک خوبصورت ڈبے میں سلیقے سے رکھا تھا اور وقت مقررہ پر ساس کو دوائیاں کھلاتی۔ بوڑھی سکینہ اس ڈبے کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے اُس سے کہا تھا کہ ’اب تمہاری زندگی اِن ہی دوائیوں کے سہارے گذرے گی‘‘۔
پانی کی سطح بڑھتی جارہی تھی… رضیہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ تو اُسے دور ایک کشتی نظر آئی… اُس نے اپنا لال ڈوپٹہ زور زور سے لہرانا شروع کیا۔
ملاح نے جب دیکھا کشتی کھڑکی کے قریب لائی۔ اُس میں پہلے ہی دو عورتیں اور تین مرد بیٹھے تھے۔عارف نے بوڑھے باپ کو کاندھوں پر اُٹھایا اور کشی میں سوار ہوا۔ بوڑھی سکینہ نے دوائیوں کا ڈبہ اپنی بہو کے حوالے کیا ’’لے بیٹی تو سنبھال لے میں تو تھر تھر کانپ رہی ہوں‘‘۔ رضیہ نے بیگ کھولا، پہلے اس میں اپنے تین سالہ بیٹے کو بٹھادیا(جیسے وہ کوئی کتاب ہو اور پھر دوائیوں کا ڈبہ بیگ کے ایک سائیڈ میں رکھا اور پھر بیگ کو یوں کاندھے پر لٹکایا جیسے سکولی بچے کتابوں کا بیگ کاندھوں پر لٹکاتے ہیں۔ اسکی ساس یہ دیکھ کر خوش ہوئی۔ اُس نے دل ہی دلی میں اپنی بہو کو دعائیں دیں۔
کشتی پانی کی سطح پر تیرنے لگی۔ کشتی ہچکولے کھا رہی تھی کیونکہ پانی کا بہائو بہت تیز تھا۔ ہر کوئی دل ہی دلی میں درود پڑھ رہا تھا۔ ایک جگہ کشتی کسی چیز سے ٹکراگئی اور بائیں کی طرف لڑھک سی گئی۔ وہاں رضیہ کھڑی تھی۔ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی، وہ سیدھے پانی میں گر گئی۔ بوڑھی سکینہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ہائے اللہ میری دوائیوں کا ڈبہ‘‘۔