ارادہ
آج کل سفارش اور رشوت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ہے ۔۔۔ میرے بس کی بات نہیں تھی اسی لیے میں نے سوچا کہ میں خودکشی کرلوں ۔۔۔۔تم نے اس قسم کی خبریں تو پڑھی ہوں گی فلاں بے روزگار نے زندگی سے مایوس ہوکر خودکشی کرلی یافلاں نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر جرائم کی راہ اختیار کرلی۔میں نے بھی یہ سوچا کہ میں جرم نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔۔’’کیوں نہ خودکشی کرلی جائے‘‘
میں تمہاری پوری کہانی سننا چاہتا ہوں۔۔۔۔اس نے کہا۔۔۔میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جائو ۔ہم کسی پارک میں بیٹھ کرسکون سے بات کریں گے۔۔۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے میری پریشانی کا اندازہ کرکے مجھ سے خیریت معلوم کی۔میں نے اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے خودکشی کرنی ہیں۔۔۔۔۔
نہیں تم خودکشی نہ کرو ۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔میں تمہیں اپنے صاحب کے پاس بھیج دیتا ہوں۔۔۔انھیں ایک نوکر کی ضرورت ہے جو بے ضرر قسم کا ہو اور زبان نہ چلائے۔۔۔۔۔
’’اگر ایسا ہے تو سمجھ لو کہ میں ایک گونگا انسان ہوں‘‘۔۔۔۔میں نے کہا ۔۔۔آج کے بعد میں ایک لفظ بھی نہیں بولوں گا۔۔۔۔‘‘اپنا کام پوری محنت کے ساتھ کرتا رہا لیکن کچھ دنوں بعد میں نے اس گھر میں ایک عجیب واقعہ دیکھا ۔۔۔۔یہ ایک شرم ناک سی بات تھی کہ بیگم صاحبہ ، صاحب کے ایک دوست کے ساتھ مصروف تھیں۔میراجی چاہا کہ میں چیخ چیخ کر سب کو بتادوںکہ اس گھر میں کیا ہورہا ہے لیکن میں تو گونگا تھا۔۔۔۔میں کون ہوں آواز اٹھانے والا۔۔۔جب معاشرہ ہی گونگا ہے تو اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔ اس کے بعدمیں نے وہاں سے نوکری چھوڑ دی کیونکہ وہاں انسانی قدروں کی کوئی وقعت نہیں لیکن گونگا پن نہیں چھوڑ آج بھوک سے بے قابوہو کر میں نے فروٹ منڈی سے سیب کی پیٹی چرالی۔۔۔۔پولیس والے تو مجھے مارتے لیکن میرے گونگے پن نے مجھے بچالیا۔۔۔۔۔‘‘
عجیب کہانی ہے تمہاری ۔۔۔۔۔۔ویسے کب تک گونگا رہنے کا ارادہ ہے۔۔۔۔؟
رابطہ ؛رعناواری سرینگر، موبائل نمبر؛9697330636
ممتا کا خون
وہ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی اپنا ڈوپتہ اس طرح سے سی رہی ہے جیسے زندگی کی شام تک پہنچ کر ۔۔۔عمر بھر کھائے ہوئے زخموں کو سینے کی کوشش کر ررہی ہو۔۔یہ سلائی کرتے ہوئے اپنے آپ میں اس طرح مگن ہوچکی تھی کہ اس کا بیٹا اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔۔۔۔وہ تو سرخ جوڑا پہنے ۔۔۔اس کی بہو۔۔۔بریف کیس کو پیہوں پر چلاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی آواز سن کر اس کا دھیان ہٹا۔
کہاں کی تیاری؟اس نے منہ سے کچھ بولے بغیر اشارے میں ہی بیٹے سے پوچھا۔۔۔
’’ہم نے سوچا ہے نئے فلیٹ میں الگ سے جاکر رہیں‘‘بیٹے نے کہا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوگیا۔۔۔ماں نے بیٹے کی طرف دیکھا ۔اس کی خاموش نظریں اسے گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے دیکھتی رہیں۔۔۔تبھی اس نے انگلی میں درد محسوس کیا۔اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا کہ سوئی کب اس کے ناخن کے نیچے سے چبھ گئی تھی اوروہاں سے خون رس رہا تھا۔۔اس کی ممتا کا خون۔۔۔
کتے
خوشبو۔۔۔اب ہم ،،یہاں نہیں رہیں گے۔ہم نے فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔جلد از جلد یہ مکان چھوڑ کر اپنوں کے بیچ چلے جائیں گے۔۔۔اب
مزید۔۔۔اس خوف وہراس کے ماحول میں رہنا میرے لیے ۔۔۔ممکن نہیں ۔۔لہجے میں عجیب سی سرد مہردی تھی ۔خوشبو انہیں تکے جارہیں تھیں اور وہ بولے جارہے تھے ۔۔۔گلی میں بہت سارے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ۔۔۔آرہی ۔۔۔تھیں۔۔۔؟