بیٹی
میکے کے دروازے پر پہنچتی ہو ں تو وہ میری اُنگلی چھوڑ کر ’’ نانا جی!! ۔۔نانا جی!! ۔۔‘‘ پکار اُٹھتی ہے۔اُن کے رعب دار چہرے پر نرمی اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آجاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ماتھے کی تمام سلوٹیں ختم ہو جاتی ہیں اور وہ جلدی اُسے تھام کر گود میں اُٹھاتے ہے۔ اُس کا ماتھا چومتے ہیں، پیا ر کرتے ہیں تودل میں اِک عجب سی خوشی کا احساس جنم لیتا ہے ۔۔۔ میں خوش ہو ں کہ اُن کی سوچ بدل گئی۔۔چلو جس پیار کے لئے میں تیس برسوں سے منتظر تھی، لیکن بیٹی ہونے کی وجہ سے مجھے نہ مل سکا، آج کم از کم میری بیٹی کو تو ملا…
روکھے ہاتھ
منُو کے خیال نے بس میں سوار ہوتے ہی مجھے بیٹھے بٹھائے گھر پہنچا دیا تھا۔دل ہی دل میںاُس کے ریشمی بالوں میں اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا، اُسے پیار کر رہا تھااوراُس کے نرم نرم مخملی ہاتھوںکو چوم رہا تھا ۔اُس کے طوطے جیسی میٹھی بولی کی یاد ہی میرے کانوں میںمصری گھول دینے کے لئے کافی تھی۔ اچانک میں نے اپنے ہاتھ پر کوئی روکھی سی چیز محسوس کی تو بس کی کھڑکی سے گردن دوسری طرف موڈ کر دیکھنے لگا۔ گردوغبار سے اٹا، اپنے کمزور جسم چیتھڑوں سے ڈھانپے، عرصہ سے دھونے کے لئے ترستے ہوئے بال بکھرے، منُو کی عمر کا ہی ایک بچہ میرے سامنے کھڑاہو کر معصومانہ انداز میںمیرے ہاتھ پر اپنا روکھاہاتھ رکھ کرمجھ سے بھیک کی التجا کرنے لگا۔اُس دن میں نے غربت و افلاس کا نیا ستم دیکھا۔۔۔میں نے جان لیا کہ مفلسی معصوم بچوں سے اُن کی نزاکت بھی چھین لیتی ہے۔
سیکھ
’’زندگی سے چند قدم دور ہو کر اِس کی قدر و قیمت معلوم ہوئی ۔۔۔اب چاہتی ہوں کہ کچھ اور دن جینے کی مہلت مل جائے مگر۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے جب اُس کی نظریںبھائی پرپڑیں تو اُس کی آنکھیں بھر آئیں ۔اُس نے محسوس کیا کہ وہ اُسے دلاسہ دینا تو چاہتا ہے مگر آج شاید اُسے خود دلاسے کی ضرورت تھی۔اپنے آنسوں پونچھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگی’’آپ ہی کہتے تھے ناکہ موت کے آجانے تک زندگی اِنسان کو کچھ نہ کچھ سِکھائے جاتی ہیں۔۔۔اب دیکھیں تو ۔۔۔زندگی مجھے موت کی قربت میںلا کر خود سے محبت کرانا سِکھا گئی۔‘‘