منتظر
آج اس کی بے چینی اسکی نگاہوں سے عیاں تھی۔ ساحل بار بار فون کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آج اسکی محبت اسے فون کرنے والی تھی۔ قاصد کے ہاتھوں پیغام آیا تھا۔ وہ فون ہاتھ میں لئے بھٹکتا رہا اور انتظار کی یہ گھڑیاں گزارنے کی کوشش کرتا رہا۔ بار بار اسکی منتظر نگاہیں فون کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ابھی آئے گا فون ، وہ جھوٹ تو نہیں بول سکتی' ساحل خود کو تسلی دے رہا تھا۔
پچھلے ایک سال سے اپنی محبت کا اظہار کئی طریقوں سے کرنے کے بعد آج اس نے بات کرنے کی حامی بھرلی تھی۔ وہ اسے صرف چند منٹ کی ملاقات بھیک میں مانگ کے آیا تھا۔ اسکی بے قراری ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ انکار کی وجہ پوچھے یا اقرار کی ضد کرے۔ معافی مانگے یا اسے مجبور کرے۔۔ایسے کئی سوالات اسکے چشم تصور سے پھوٹ رہے تھے۔
ان ہی خیالوں میں غرق وہ سڑک پر بے فکری کے عالم میں چلتا رہا۔ ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے کنارہ دکھایا۔ اسکے ہاتھ سے موبائل تھوڑی دور گر گیا۔ وہ بے ہوش ہو گیا کہ دور پڑے موبائل کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر نام عیاں تھا۔
"عافیہ" اسکی یکطرفہ محبت۔
چاند نے اپنا سفر طے کر لیا تھا اور سورج مشرق سے نکل کر اپنی کرنیں بکھیر چکا تھا۔ رخسار حسب معمول فجر کی اذان کے ساتھ ہی جاگ کر اپنے گھریلو کام میں مشغول ہوگئی تھی۔ سہانے موسم کے نکھرتے رنگ تو تھے مگر رخسار عجیب بے چینی سے دوچار تھی۔وہ بے وجہ پریشانی محسوس کر رہی تھی۔ ایک انجانی اور دھندلی تصویر اس کے ذہن میں گردش کررہی تھی۔ دھیرے دھیرے تصویر صاف اور نمایاں ہوتی گئی۔یوں شاکر کا چہرہ صاف نظر آنے لگا۔ شاکر یونیورسٹی میں اس کا ہم جماعت تھا اور رخسار سے بے انتہا محبت کرتا تھا۔ وہ دوران تعلیم اپنی محبّت کا اظہار کئی بار اور کئی طریقوں سے کر چکا تھا مگر رخسار انکار کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ وہ آخری دن تک پْرامید تھا۔ مگر وہ آخری لمحہ بھی گزر گیا جب رخسار اسے چہرہ دکھائے بنا ہی چلی گئی تھی۔
آج سات سال بعد اسکی یاد اسے اتنا پریشان کیوں کررہی ہے۔ اسی الجھن میں وہ بیقرار تھی۔ وہ من ہی من میں کہہ رہی تھی کہ ' میں اْس سے محبت تو نہیں کرتی تھی ، پھر یہ بے چینی کیسی؟ دل کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ پھر خود ہی اْستاد کا وہ سبق یاد آیا کہ " انسانی زندگی کے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو عقل کی محدود چاردیواری سے گزر کر مملکت دل کی لامحدود وسعتوں سے تعلق رکھتے ہیں " اس سچائی سے وہ انکار تو نہیں کر سکتی تھی۔
شاکر کی یاد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ اسکی باتیں، اسکا ہنسنا ، کلاس میں رخسار کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے سے شاکر کے چہرے کا کِھل اُتھنا اور غالب کا وہ شعر جو شاکر اسے اکثر سنایا کرتا تھا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ایسی کئی یادیں رخسار کے چشمہ تصور سے پھوٹ رہی تھیں۔ وہ ابھی یادوں کے سفر میں ہی تھی کہ ایک زوردار آواز نے اسے چونکا دیا۔ اسکا بھائی اسے بلا رہا تھا۔ وہ جلدی جلدی باہر آئی۔
"رخسار۔ اندر سے کھانالے آو ، یہ مسافر شاید کئی روذ سے بھوکا ہے " یہ کہہ کر اس نے ایک پاگل دیوانے کی طرف اشارہ کیا جو آنگن میں بیٹھا اپنے گندے ہاتھوں سے مٹی پر لکیریں کھینچ رہا تھا۔ گندے اور پھٹے پرانے ملبوسات، گندے ہاتھ اور بال جیسے کئی مہینوں سے پانی کی بوند کو ترسے ہوں۔
رخسار اندر سے کھانے کی ایک تھالی لے کر باہر آگئی اور اْس دیوانے کی طرف ڈرتے ڈرتے قدم بڑھانے لگی۔ سامنے پہنچتے ہی دیوانے نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔ رخسار کے ہاتھوں سے تھالی چھوٹ کر گر گئی اور اس کے حلق سے بے ساختہ ایک چیخ نکل گئی۔۔
"شاکر ؟ "
رابطہ؛ہندوارہ ،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی،9596253135