بانجھ
آج شادی کے سات سال بعد بھی جب میں اولاد کی نعمت کے لئے ترس رہی ہوں تو مجھ سے بے انتہا محبت کرنے والی باجی نے اپنی چھو ٹی بیٹی قدوا کومیری گودمیں ڈال کر کہا ’’آج سے صرف تم اِس کی ماں ہو۔‘‘ میںبے حد حیران نظروں سے اُنہیں دیکھتی رہی۔ دراصل مجھے وہ دن یادآیا جب باجی اپنی بڑی بیٹی ثمراکو اِیک عورت کی گود سے کھینچ کرلائی اور زیر لب کچھ پڑھ کے اُس پر دم کیا۔مجھے اُس عورت پر بہت ترس آیا تو میں فوراََ بول پڑی’’باجی !آپ اِتنی پڑھی لکھی ہونے کے باوجود ایسی جاہلوں جیسی حرکتیں کیوں کرتی ہیں۔۔۔تھوڑی دیر کے لئے اُس کی گود میں رہنے دیتی تو کون سی آفت آجا تی؟۔۔۔اب اگر وہ بانجھ ہے تو اِس میں اُس کا کیا قصور ؟۔۔۔یہ تو اللہ کی کرنی ہے۔۔۔‘‘تو وہ جھٹ سے طیش میں آکر بولی’’تم اپنی بکواس بند کرواور اپنی عمر کے حساب سے بات کیا کرو۔۔۔ایسی عورتوں کا سایہ بھی میں اپنی بچی پر پڑنے نہیں دوں گی۔۔ ۔ جائو اندر لے جائو اِسے۔۔‘‘ میں بحث کو مختصر کر کے ثمرا کولے کردوسرے کمرے میں چلی آئی۔
ساتھی
وہ اُسے نوکری چھوڑ دینے پر آمادہ کر نے کی کوشش میں لگا تھا لیکن اُس کی باتیں سننے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ وہ بڑے اطمینان سے بولی’’موجودہ ز ما نے میں مرد کی کامیابی پیسہ کمانا اور عورت کی کا میابی شادی شدہ ہوناہے لیکن اِس کے باہر بھی ایک وسیع دُنیا ہے جس سے تم بہ خوبی واقف ہو۔۔۔ احمد! میں زندگی کے اِس سفر میں تمہارے ساتھ چلنا چاہتی ہوں ،تمہارے سہارے نہیں۔‘‘
نظر انداز
مسلسل پندرہ برس سے اُس کے شوہرکی جانب سے اُس پر نازل ہونے والے عذاب کی میں بھی گواہ ہوں۔۔۔کھڑکی سے کان لگا کر میں آج تک اُس کی چینخیں سُنتی آرہی تھی لیکن آج ۔۔۔۔آج میں نے اُس گھر کی چوکھٹ پار کر ہی لی ۔۔۔مگر کس لئے؟۔۔۔فقط اُس مظلوم عورت کا آخری دیدار کرنے کے لئے؟؟
طالبہ شعبہ اُردو، کشمیر یونیورسٹی سرینگر،[email protected]