گُردہ
عادلؔ کی حالت پھر سے خراب ہونے لگی تھی ۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اُس کے دونوں گردے ناکام ہوچکے ہیں۔ صرف ایک سال پہلی اسکی ماں نے اُسے اپنا یک گردہ عطیہ کیا تھا مگر اب پھر سے دونوں گردے ناکام ہوچکے تھے اور اب ایک اور گردے کی ضرورت تھی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ گردہ عطیہ کون کرے۔ عادل کے پانچ بھائی تھے پر کسی نے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے گردہ دینے سے کنی کترائی۔ بڑے بھائی نے تجویز پیش کی کہ ایک سومو گاڑی کرایہ پر لی جائے اور عادل کو اس میں بٹھاکر گاڑی کو کسی ہسپتال یا زیارت گاہ کے سامنے کھڑا کیا جائے اور لوگوں سے چندہ کی اپیل کی جائے۔تاکہ پیسے دے کر گردے کا بندوبست ہوسکے۔
ہاں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ ایک بھائی نے کہا… عادل کی ماں، جو دور بیٹھی تھی، اچانک اپنی جگہ سے اُٹھی اور بیمار بیٹے کے نزدیک آکر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ ’’کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں اپنے بیٹے کو اپنا دوسرا گردہ بھی دوں گی‘‘۔
ہمسائے
’’تم نے پوری تیاری کر لی‘‘ شوہر نے بیوی سے پوچھا۔
’’ہاں ۔ میں نے پوری تیاری کر لی ہے‘‘ بیوی نے اعتماد بھرے لہجے میں جواب دیا۔
’’کل ہم تین ماہ کے لئے یہاں سے جارہے ہیں، سوچتی ہوں اس دوران ہمارے مکان کا خیال کون رکھے گا، آج کل تو دن دہاڑے چوریاں ہوتی ہیں۔ بیوی نے شوہر کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’میں اِس سامنے والے ہمسائے سے کہوں گاکہ ہمارے جانے کے بعد ہمارے گھر کا خیال رکھے ، شوہر نے باہر جاتے ہوئے کہا ’’ہاں یہ ٹھیک رہے گا‘‘ بیوی نے سر ہلاتے ہوئے کہا… چند قدم چل کر اچانک وہ واپس مُڑا اور اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہا، ’’تم جانتی ہو صاحبِ خانہ کون ہے اس کا نام کیا ہے؟؟؟۔۔۔۔
وفادار
چار برس ان چار بھائیوں نے کبھی ماں کی خبر نہیں لی۔ اب جب کہ وہ مرچکی تھی اور اُسے دفنایا گیا تھا تو وہ اسکی قبر پر آگئے۔ بڑے بیٹے نے پادری سے کہا ’’ فادر جلدی جلدی دُعائیں پڑھیں مجھے کسی ضروری میٹنگ میں جانا ہے۔ چاروں بیٹے سوچ رہے تھی کہ اُن کی ماں عمر کے آخری ایام میں کسی دماغی مرض میں مبتلا ہوچکی تھی، اسلئے اُس نے اپنی کروڑوں کی جائداد اپنے کتے کے نام کر دی اور چاروں بیٹوں کو بے دخل کیا۔ پادری نے دُعائیں پڑھنے کے لئے مقدس کتاب کھولی ہی تھی کہ تیز بارش شروع ہوگئی۔ قبر کے پاس کھڑے سبھی افراد اِدھر اُدھر بھاگے۔ صرف وہ نہیں بھاگا جو چار دنوں سے بھوکا پیاسا قبر کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ اس کا وفادار کُتا تھا۔
ایوارڑ
چیئر مین بورڈ آف پرموشن فار لینگویجز نے باقی ممبروں سے کہا ’’ میرے خیال میں اس بار جمال الدین جمال کی کتاب ’’زندگی اے زندگی‘‘ کو پہلا ایوارڑ دیا جانا چاہئے۔!
سبھی ممبروں نے حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اُن سبھوں نے مذکورہ کتاب کا مطالہ کیا تھا۔ اُن کی سوچ کے مطابق وہ کتاب کسی بھی صورت میں کسی ایواڑ کے لائق نہ تھی مگر وہ چیر مین کی بات کے ساتھ اختلاف کرنے کی جُرأت نہیں کرسکتے تھے اسلئے اُنہوں نے چیئر مین کی ہاں میں ہاں ملادی اور کتاب ’’زندگی اے زندگی‘‘ کو سال کی بہترین کتاب قرار دئے جانے کا فیصلہ کیا۔
ایک پُر وقار تقریب میں جمال الدین جمالؔ کوتین لاکھ روپے نقدی کے علاوہ ایک شال اور ایک تہنت نامہ پیش کیا گیا۔ دوسرے دن جمال الدین جمالؔ چیئر مین کے گھر میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ چائے پینے کے بعد اُس نے جب سے ایک لفافہ نکالا اور چیئر مین کو دیتے ہوئے کہا۔ ’’سر انعام کی رقم میں آپ کا حصہ‘‘۔
ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر،فون نمبر9419004094