احترام
صابر علی ہیڈکلرک الطاف کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا
پریشانی اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ وہ مُفطرب تھا۔
اُس نے الطاف سے کہا
’’صاحب میری فائل آگے بڑھائیے، مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے، میری بیٹی سخت بیمار ہے اُسے علاج کے لئے دوسرے شہر میں لے کے جانا ہے، میری جیب خالی ہے۔
ہیڈ کلرک نے لمبی داڑھی کو کنگھی سے سوارتے ہوئے کہا۔
’’دیکھئے صابر صاحب اب تو آپ کا کام عید کے بعد ہی ہوگا، اِس مہینے میں آپ کا کام نہیں ہوسکتا ہے، ناممکن ہے۔
الطاف نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
’’مگر کیوں؟ عید میں تو ابھی بہت دن ہیں، تب تک میری بیٹی کا کیا ہوگا۔۔۔ صابر علی کی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے۔
’’ماہ رمضان میں کوئی کام نہیں ہوتا۔۔۔ یہ مہینہ آرام اور عبادت کا ہے۔‘‘ الطاف نے سر کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’کیوں کام نہیں ہوتا ہے، اسی مہینے میں تو کام زیادہ ہونا چاہئے۔‘‘ صابر علی نے جواب دیا۔
’’آپ کتنے سیدھے سادھے آدمی ہیں۔ بالکل نہیں سمجھتے، دیکھئے صابر صاحب مجھے اس مہینے کا دل سے احترام ہے اور میں اس مہینے میں کوئی کام نہیں کرتا۔‘‘ الطاف نے اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔’’ مطلب! میں سمجھا نہیں۔‘‘ صابر علی نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’مطلب کہ اس مبارک مہینے میں آپ سے فائیل آگے بڑھانے کا معاوضہ کیسے لوں گا۔ آخر میں اس مہینے کا دل و جان سے احترام کرتا ہوں۔‘‘
دیانت
وہ سرکاری گودام میں ایک معمولی ملازم ہے
اُس کے ساتھ کام کرنے والے اُس پر حد سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ چاولوں کے گودام کی چابی اُس کے پاس رہتی ہے۔ اُس کا کام چالوں کی بوریاں گن گن کر گودام سے باہر نکال کر راشن ڈیپوئوں پر بھیجنا ہے اور وہ یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے۔ رات کو وہ گھر پہنچا تو اُسکی بیوی اور تین بچے اُس کے انتظار میں تھے۔ اُس نے کپڑے بدلے اور نمکین چائے کا ایک پیالہ پیا۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد اُسکی بیوی نے ہچکچاتے ہوئے کہا، سُنئے گھر میں چاول کا ایک دانہ بھی موجود نہیں ہے بچے بھوکے ہیں کچھ کیجئے نا۔۔۔
اُس نے قمیض کی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا اور چابی کو اپنی مُٹھی میں بھینچ لیا۔ چند لمحے وہ سوچتا رہا پھر اُس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے بیوی سے کہا۔
’’آج کی رات کسی طرح گذار کر لو کل مجھے تنخواہ ملے گی میں چاول لے کے آئوں گا۔۔۔!!!
بدلہ
آج وہ گھر پر اکیلا ہوگا۔ آج میں اُس سے بدلہ لیکر رہونگا۔ عارف نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔ عارف نے حال ہی میںخریدی ہوئی پستول کو دائیں ہاتھ انگلی میں گھماتے ہوئے خود سے کہا۔ اس پستول سے نکلی ہوئی گولی کی آواز بھی نہیں آتی، آس پاس کے لوگوں کو گولی چلنے کی خبر بھی نہیں ہوگی۔ میں اُس کمبخت ، حرام خور کو تڑپا ٹرپا کے ماروں گا۔اُس نے میری بیوی کے ساتھ زور زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے، وہ انسان نہیں انسانیت کے نام پر دھبہ ہے۔ اُس کی سزا موت ہے۔۔۔صرف موت۔
وہ بدلے کی آگ میں جلتا ہوا ساحل کے گھر پہنچا تاکہ اُسے موت کے گھاٹ اتار کر اپنے بدلے کی آگ بجھادے۔
وہ ساحل کے فلیٹ پر پہنچا دروازہ ادھ کُھلا تھا، اُس نے دائیں ہاتھ میں پستول سنبھالی اور دھیرے دھیرے اندر داخل ہوا، اندر جاکر اُس نے دیکھا کہ ساحل کمرے کے ایک کونے میں جل بن مچھلی کی طرح تڑپ رہا ہے۔۔۔ اُس نے پستول جیب میں رکھی اور ساحل سے پوچھا کیا ہوا؟۔
ہا۔۔۔۔ ہا۔۔۔۔ ہارٹ اٹیک۔ ساحل نے بڑی مشکل سے کہا۔
گبھرائو مت تمہیں کچھ نہیں ہوگا،میں ابھی اسپیشل ایمرجنسی ایمبولینس کو فون کرتا ہوں۔۔۔
غضب
۔۔۔۔ خانم نے باہر جاتے گھریلو نوکر کو ہدایت دی کہ کچن میں پڑے سارے جھوٹے برتن دھولینا۔ ہر ایک کمرے کی صفائی کرنا، باہر کا پاتھ بھی دھولینا، باغ میں پھولوں اور پودوں کو پانی سے سیراب کرنا اور جب صاحب آئے تو اُس کے لئے چائے بنانا۔ اسکے بعد وہ اپنے دو نوںبچوں کو لے کر کار کی طرف بڑھی۔کار میں اُس کا شوہر اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ نوکر فضل دین نے مین گیٹ کھولا اور کار باہر کی طرف چل پڑی۔ فضل دین نے گیٹ بند کیا اور کام میں جُٹ گیا۔۔۔۔ اختر علی نے بچوں کو سکول گیٹ کے پاس ڈراپ کیا اور پھر بیوی کو اُس بنک کے سامنے ڈراپ کیا جہاں وہ بحیثیت جنرل منیجر کام کرتی ہے۔ بیوی نے اُس سے کہا ’’ بیسٹ آف لک‘‘ ’’تھینک یو‘‘ کہہ کر اختر علی کار دوڑا نے لگا۔
’’بچہ مزدوری‘‘ پر ایک بہت بڑی فنکشن ہورہی تھی۔ بڑے بڑے لوگ، عالم، دانشور، قلمکار اور صحافی مدعو تھے۔ اختر علی کو بچہ مزدوری پر ایک بہترین کتاب لکھنے کے لئے ایواڑ بھی دیا جانا تھا۔ اختر صاحب اسٹیج پر آئے اور تقریر شروع کی ’’بچہ مزدوری ایک سنگین سماجی، اخلاقی اور مذہبی جُرم ہے۔ بچوں کی عمر ہنسنے کھیلنے اور پڑھنے لکھنے کی ہوتی ہے۔ اُن سے اُن کا فکروغم سے آزاد حسین بچپن کیوں چھینا جائے؟‘‘ اُسکے بعد مقررین نے تقاریر کیں اور پھر اختر علی کو ایواڑ سے نوازا گیا۔ وہ سرشاری کے عالم میں گھر پہنچا۔ چونکہ بچہ مزدوری کے خلاف کتاب لکھ کر اُس کو زبردست پذیرائی ملی تھی، لہٰذا وہ بہت خوش تھا۔ گیٹ پر پہنچ کر اُس نے ہارن بجایا۔ فضل دین نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور اختر صاحب نے گاڑی پارک کر لی۔ فضل دین کپڑا اُٹھا کے گاڑی کے بونٹ پر جمی گرد صاف کرنے لگا۔ اختر کو لگا جیسے وہ گرد اُڑ اُڑ کر اسکے ضمیر پر جم رہی ہے۔ اُس نے خود کو جھٹکا دیا اور فضل دین کا ہاتھ روکا۔ آج اُسے فضل دین پر پیار آرہا تھا،کیوں نہ آتا؟ فضل دین تھا ہی پیارا سا 9 سال کا بچہ۔
ہمدانیہ کالونی بمنہ،موبائل نمبر،9419004094