پروفیسر دوست
ڈگری کالج کے مین گیٹ پر پہنچتے ہی میں نے اسے دیکھ لیا وہ بہت ہی خوش تھا اور اپنے ساتھی اساتذہ کے ساتھ کالج کینٹین میں چائے پی رہا تھا۔میں نے اپنی بائیسکل سائیڈ میں لگائی اور ایک کار کے پیچھے چھپ کر اسے فون لگا یا ۔فون لگتے ہی بغیر کسی سلیک علیک کے کہا، باسط سر کہاں ہیں آپ، میں آپ سے ملنے کالج آرہا ہوں ،وہ بھی ابھی۔ اس وقت میں کافی بزی ہوں ،اس وقت مت آنا۔ دوسری طرف سے کافی بے رخی کا مظاہرہ تھا۔ سر تھوڑی ہی دیر تو لگے گی۔ ویسے بھی آپ اس وقت کہاں ہیں ؟ میں اس وقت ایک سمینار میں ہوں اور بہت مشغول ہوں ،شام کو ملیں گے ۔ اس وقت مجھے پانی پینے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ شام کو تجھے لینے میں خود اپنی گاڑی لے کر آوں گا ۔ تو آپ نے گاڑی بھی لے لی جناب ۔ وہ تجھے بتانا بھول گیا تھا، اوکے شام کو ملیں گے ابھی بیزی ہوں، بس تیری کال آگئی تو باہر آیا تھا۔ اس کا جھوٹ واضح تھا ۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالا تو میری نظر اسی چمچاتی گاڑی کے پچھلے شیشے پرپڑی جس کی آڑ میں میں چھپا تھا۔ اس میں موٹے لفظوں میں ’’ پروفیسر باسط ‘‘ لکھا تھا۔ میں نے امیری اور غریبی کی کھائی۔ اپنی دوستی میں حائل دیکھ اپنی سائیکل لے کر سیدھے گھر کا راستہ لیا۔۔۔
فیس بُک کا رشتہ
فیس بک پر ہی اس سے دوستی ہوئی۔ مستی میں اسے رکویئسٹ بھیجی اور دوستی ہوگئی تو ایک دن جم کر چیٹ بھی ہوئی۔ پھر تو چیٹ کا ایک نہ روکنے والا سلسلہ چل پڑا ۔ میں نے فیس بک میں کسی دوسرے نام سے اکاونٹ کھول رکھا تھا۔ دھیرے دھیر ے ہم میں اتنی گہری دوستی ہوئی کہ بات پیار محبت کی دہلیز پر پہنچ گئی۔ اب جس دن اس کا میسج نہیں آتا مجھے چین نہیں آتا ،شاید یہی بے قراری دوسری طرف بھی تھی ۔ایک دن موقع دیکھ میں نے اس سے شادی کی بات چھیڑدی تو اس نے چیٹ ہی بند کردیا۔ ٹھیک تین روز بعد میرے مسیج کا جواب کچھ ٹال مٹول میں آیا، جس سے نہ اس کا اقرار جھلکتا تھا اور نہ انکار۔ کچھ دن یوں ہی چلتا رہا۔ پھر ایک دن تو قول و قرار بھی ہوا۔ پہلے ملنے کی بات ہوئی، اس نے کچھ روز کی مہلت مانگی ۔میں نے بھی خوشی سے قبول کیا ۔ پھر ایک دن اس نے مجھے بلایا اور ایڈریس بھی دیا اور کہا کہ کل شام پانچ بجے ہم فلاں پارک میں ملیں گے اور میں اس رنگ کے کپڑے پہن کر آئوں گی ۔ اپنے شہر سے دوسرے شہر جانے میں کچھ خرچہ ضرور آتا لیکن ماں نے میری یہ دشواری بھی حل کر دی۔ کچھ دوستوں سے ملنے کے بہانے میں نے اُس سے پیسے لئے اور بائیک پر اپنے لنگوٹیا یا رنسیم کو لے کر چل دیا۔ اس دن پانچ بڑی مشکل سے بجے اور ٹھیک پانچ بجے ایک اکیلی لڑکی اُس پارک میں نمودار ہوئی۔ وہ ایک جگہ کھڑی ہو کچھ تاک رہی تھی۔ میں اس کے ٹھیک پیچھے والی طرف سے تھااور چاہتا تھا کہ اسے پیچھے سے جاکر لپٹ جائوں ۔دل کی دھڑکنیں تیز ہوری تھیں ۔میں دھیرے دھیرے اس کی جانب بڑھااور پیچھے سے اسے پیچھے مڑنے کے لئے بولا۔ جب ہماری نظریں ایک دوسرے کے چہروں پر پڑیں تو ہمارے اوسان ہی خطا ہوکر رہ گئے کیوں کہ وہ کوئی اور نہیں اسی شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئی میری بہن تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے سوچل میڈیا کا جوتا میرے چہرے پہ رسید ہوا۔
دراس کرگل لداخ،موبائل نمبر؛8082713692
Contents