وفا
رئیس کالج پارک کے بڑے چنار کے سائے تلے یادوں کے سمندر میں ہچکولے کھا رہا تھا ۔ اسے کالج کے دنوں کی حسین اور خوبصورت یادیں تسکین بخش رہی تھیں ۔ تبھی اسے ادیفہ کی مذاق میں کہی ہوئی وہ بات یاد آئی کہ " دس سال بعد ہم اسی موسم میں یہیں ملیں گے "
وہ ہنس دیا " گردش ایام میں ایسی باتیں یاد نہیں رہتیں "
دو پہر کی دھوپ میں چنار کے سائے میں نیند کا غلبہ ہوا اور وہ سو گیا ۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ کسی کی پکار نے اسے جگا دیا ۔ اُس نے آنکھیں موندھیں اور کچھ سنبھلا کہ سامنے ایک حسین اور خوبصورت عورت کو دیکھ کر چونک گیا ۔ اسکے حلق سے صرف ایک لفظ نکل سکا۔
" ادیفہ"
ڈیتھ سرٹیفکیٹ
وہ اب تک بہت ساری اموات کے صداقت نامے پر دستخط کر چکا تھا اور یہ اس کیلئے کوئی مشکل کا کام نہیں تھا کیونکہ یہ اسکا پیشہ تھا ۔ علاقے میں ڈاکٹر اعجاز قابل اور بہادر ڈاکٹروں میں شمار کئے جاتے تھے ۔ لیکن آج خون میں لت پت لاش کی تصدیق کرنے میں اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ اسکے سامنے میز پر پڑی تھی اور اسکی آنکھوں سے اشک رواں تھے کہ نرس نے پوچھا ۔ " ڈاکٹر صاحب اس پر نام کیا لکھوں"
تبھی سسکیوں بھرے لہجے میں اعجاز صاحب نے جواب دیا،
" عمر اعجاز "
ہندوارہ ،متعلم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی،9596253135