ایسا ہی ہوتا ہے
زمین کو لے کر باپ بیٹے میں توُ توُ میں میں ہوئی۔دوسرا بیٹا بار بار ان سے التجا کرتا تھا کہ خدارا خاموش رہیں۔چند ہی ساعت میں وہ زور زور سے چلانے لگے۔پھر دونوں کھڑے ہوے۔کرتار کا دوسرا بیٹا پھر سے بول اٹھا”باپو۔آپ ہی خاموش ہوجائیں۔“
اور بڑے بھائی سے بھی بولا ”بھائی چپ ہوجا۔پڑوسی کیا کہیں گے“۔
اچانک باپ بیٹے میں ہاتھا پائی شروع ہوئی۔وہ دونوں ایک دوسرے کو پیٹنے کے لیے ڈنڈے ڈھونڈنے لگے۔کرتار اپنی چارپائی کے نیچے سے بڑا سا ڈنڈا نکال لایا۔سندیپ نے باہر برآمدے سے ڈنڈا لایا۔پھر مارا ماری شروع ہوئی کمرے میں۔عورتیں کھیت پہ گئی ہوئی تھیں۔کبھی باپ بیٹے کی ٹانگوں پہ وار کرتا۔تو کبھی بیٹا باپ کی کمر پہ حملہ کرتا۔تیسرے بیٹے ببلو نے جلدی سے جاکے کمرے کی لایٹ جلائی۔باپ بیٹا ایک دوسرے کو گالیاں دے رہیں تھے اور تلوارو کی طرح ڈنڈے چل رہیں تھے۔اسی اثنا میں کمرے کے اندر زور دار چیخ گونجی۔
اب کمرے میں کرتار کی لاش تھی۔خون میں لت پت۔قاتل بیٹا تھا سندیپ ۔پریشان اور خوفزدہ۔اور تیسرا بیٹا ببلو۔سندیپ نے تھرتھراتے ہوے ببلو سے پوچھا ”اوے میں نے غصہ میں آکر باپو کو مار ڈالا۔اوے تونے مجھے اور باپو کو روکا کیوں نہیں ۔آدھہ گھنٹہ سے ہم جھگڑا کر رہے تھے۔۔ہاتھوں سے روک نہیں رہے تھے بس زبان سے بول رہا تھا مت لڑو۔۔۔۔“ وہ غصہ کی حالت میں پوچھ رہا تھا۔تو ببلو اطمینان سے بولا۔۔۔
”بار بار بول جو رہا تھا مت لڑو اور میں ہاتھوں سے کیسے روکتا۔میں تو لائیو ویڈیو بنا رہا تھا موبائل سے۔۔سندیپ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔اس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
جَنتّی
امجد صاحب گزر گئے تو دوسرے دن شام کے وقت ان کے چاروں بیٹے اور بیٹیاں اخبار کے لئے اشتہار بنا رہے تھے۔رسم چہارم کا۔دونوں نوکر بھی پاس ہی بیٹھے تھے۔سب سے چھوٹا بیٹا لکھنے بیٹھا تو بڑے بھائی سے پوچھنے لگا کہ بھیا کیا لکھوں۔بڑا بھائی چند ساعت خاموش رہا اور پھر بولا۔” لکھو یہ خبر انتہائی دکھ کے ساتھ دی جاتی ہے کہ محکمہ مال (ریوینیو ڈیپارٹمنٹ) کے مایہ ناز افسر ہمارے شفیق والد ماجد امجد صاحب یہ دنیا یہ چھوڑ کر چلے گئے۔"لکھا بھائی اب آگے کیا لکھوں“
’’لکھو کہ مرحوم شریف، دیندار، ایماندار،اصول پسند، محب اور جنتی انسان تھے۔دنیا سے کم لگائو تھا۔۔۔۔۔وہ بولے جا رہا تھا بھائی لکھے جارہا تھا۔گھر کا ایک بزرگ نوکر ماضی کے خیالوں میں گُم تھا۔اسے یاد آرہا تھا کی تیس سال پہلے وہ اس گھر میں آیا تھا نوکر بن کے۔اس کو یاد آرہا تھا کہ پٹواری کی پوسٹ سے ترقی کرتے کرتے امجد میاں کیسے تحصیلدار بن گئے۔اب اس کی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا کہ پٹواری بننے سے پہلے امجد صاحب کا مکان دو کمروں پہ مشتمل تھا۔ پھر لوگوں سے پیسہ اینٹھتے اینٹھتے کس طرح دو کروڈ کا محل بنایا اور جگہ جگہ زمینیں خریدیں۔ آج اُن کے پاس پچاس کنال زمینیں ہیں۔اور عبادت کی طرف تو وہ ریٹایر ہونے کے بعد مائل ہوگئے۔وہ تذبذب کی حالت میں تھا۔بے چینی محسوس کر رہا تھا۔کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔سوچ رہا تھا کس سے پوچھے تو سامنے بیٹھے دوسرے نوکر کے قریب گیا اور کان میں دھیرے سے بولا”سنو ۔دلاور۔۔۔انہوں نے اخبار کے اشتہار پہ لکھا کہ وہ ایماندار تھے اور جنتی بھی۔۔۔کیا اخبار پہ جھوٹ ہی لکھنا ہوتا ہے ۔۔۔؟“ وہ بڑی معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔دلاور اسے خاموشی سے تکنے لگا۔ لیکن اس کو جواب کا انتظار تھا دیر تک۔۔
نتیجہ
وہ بس میں سوار ہوا۔بس سواریوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی مگر اسے سیٹ مل ہی گئی۔لیکن جب بھی بس میں کوئی عورت یا بزرگ سوار ہوتا وہ انہیں اپنی سیٹ پیش کرکے کھڑا ہوجاتا۔اسے بار بار سیٹ مل جاتی مگر بار بار وہ اپنی سیٹ کسی نہ کسی عورت، بزرگ یا کمزور شخص کے لئے خالی کردیتا۔ منزل پر پہنچ کر وہ بس سے اترا تو سڑک پہ چلنے لگا۔ایک تیز رفتار کار زوں کرتے اُسکو چھوتے چھوتے نکل گئی مگر وہ بچ گیا۔لوگو کی بھیڑ اکھٹا ہوگئی۔کوئی آدمی پیچھے سے بولا” موت کے پنجے سے نکل آیا ہے۔نہ جانے کس کی دعا کام آئی ہے“
حسینی کالونی۔چھتر گام۔فون۔9596414645