شرافت
’’ عورت کی شرافت ہی اُس کا زیور ہے۔۔۔جانتی ہونا صبا ! کتنی محبت کرتا ہوںتمہاری بھابھی سے۔۔۔لیکن اللہ نہ کرے آج بھی۔۔۔آج بھی اگرمیرے کانوں سے اُس کے ماضی کے متعلق کوئی ایسی ویسی بات گزرے تو میںاُسی وقت تین الفاظ کہہ کراُسے یہاں سے چلتا کروں گا۔‘‘نہ جانے کس وجہ سے فیروز کی نصیحتیں صبا سے ہضم نہ ہوئیں تو بھابھی کی موجود گی کا خیال بھی نہ کرتے ہوئے وہ اپنے بھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول پڑی’’سمجھ نہیں آتا ۔۔۔صرف عورت کا ماضی ہی کیوں بے داغ ہونا چاہیے؟۔۔۔مرد کا کیوں نہیں؟۔۔۔کیا لفظ’’ شرافت ‘‘صرف عورت سے منسلک ہے؟‘‘
کمائی
و اقف تھا کہ وہ بڑے گھر کی بیٹی ہے، اِس لئے ضروری سمجھا کہ اپنی ذات اور اوقات کے پوشیدہ پہلو اُس کے سامنے رکھ دوں۔جب تنخواہ کی باری آئی تو میں پلکیں جھکائے مہینے کے آخر میں حاصل ہونے والی قلیل رقم کا ذکر کرنے لگا۔ ـــ’’ضروری یہ نہیں کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے۔۔۔ ضروری یہ ہے کہ آپ نے وہ کہاں سے اور کیسے کمائی۔‘‘وہ مجھے مطمئن کر نے کے لئے ایک ایسا جملہ بولی جس میں میرے لئے ایک پوشیدہ سوال تھا، جس کا جواب میں فخر سے دے سکتا تھا۔
دو اجنبی
کئی دنوں سے لائبریری میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے دو اجنبیوں کا ہنسی مذاق اور دوستانہ رویہ دیکھ کر میں نے بے ساختہ پوچھ لیاکہ کیا وہ ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں؟جواب دونوں نے ایک دم سے اور ایک ساتھ دیا۔ ۔پھر ایک دوسرے کی اور حیرانی سے دیکھنے لگے۔لڑ کی نے انکار کیا جب کہ لڑکے نے اقرار۔مزید پوچھنا مجھے مناسب نہ لگاکیوں کہ ماحول تبدیل ہو چکا تھااور دونوں اپنی اپنی کتابوں کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔دونوں میں سے ایک تو سچ بو ل رہا تھا مگر کون؟۔۔یا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔۔۔