’’ دہشت گرد‘‘
جب انھوں نے حامد کی تلاشی لی توحامد کی جیب سے اسکول کا شناختی کاڑ ،کچھ پیسے اور موبائیل فون نکلا۔ وہ تو بس حامد کو پیٹنے کا بہانہ تلاش کر رہے تھے،اس لئے موبائیل فون ہاتھ میں لیتے ہی انھوں نے حامد سے فون کا پا س ور ڑ مانگا۔ حامد نے بڑے ہی ادب سے کہا کہ کون سا قانون یہ حق دیتا ہے کہ آپ کسی کا فون اس کی مرضی کے بغیر ۔۔۔۔‘‘حامد نے ابھی اپنی بات پوری بھی نہ کی تھی کہ انھوں نے حامد کے نورانی چہرے پر دو چار تھپڑ رسید کر کے کہا ’’سالے! تو پاس ورڑدیتا ہے یا تجھے دہشت گرد نام دے کر تیرا کام یہیں پر تمام کر دیں ‘‘۔
’’مہندی‘‘
نازیہ ایک پیالی میں مہندی لے کر انتظار کر رہی تھی کہ کب اُس کا بھائی آئے گا۔یہ مہندی شاکر نے عرب سے خاص اپنی شادی کے لئے منگوائی تھی اوراپنی بہن نازیہ کو دے کر کہا تھا یہ مہندی میری پہ اس دن لگانا جب میری شادی ہوگی ۔ نادیہ اس عربی مہندی میں بار بارپانی کے قطرے ڈال کر ملارہی تھی کہ اچانک جمِ گفیر سے آوازآئی کہ شاکر تیرے خون سے انقلاب آئے گا۔