اصلیت
وہ دفتر سے آیا۔چائے پی اور سیدھا اپنے کمرے میں گیا۔لیپ ٹاپ پہ انٹیرنیٹ آن کیا اور چیٹنگ شروع کی۔ایک لڑکی کو بہن بنایا تھا۔وہ کسی پریشانی کا اظہار کرتی تو یہ اس سے بھی زیادہ دکھی ہوجاتا۔آج بھی وہ لڑکی وہاں سے بوائے فرینڈ کا تیکھا رویہ بیان کرکے رو رہی تھی تو یہ بھی رونے لگا۔اور لکھنے لگا"میری قسم ہے اگر روئی تو ۔گویا میری لاش پہ روئو گی۔میری قسم ہے آنسوں پوچھ لو۔آپ کا بھائی ابھی زندہ ہے۔میں سب ٹھیک کروں گا۔۔“وہ اسے یقین دلا رہا تھا۔
ایک اور عورت آن لائن تھی۔وہ پیشے سے مُصَوِر تھی اور طلاق یافتہ۔ایک بار اِس نے اُسے پرپوز کیا تھا تو اس نے کہا تھا۔ میں تمہاری ماں کی طرح ہوں۔مجھے مام کے نام سے بُلاو۔تو دل پہ پتھر رکھ کے یہ اسے مما بُلانے لگا۔اس نے باتوں باتوں میں کہا کہ اسے سردرد ہے ۔تو یہ بہت پریشان ہُوا اور لکھنے لگا”آپ کو میری قسم پہلے اٹھ کے ٹیبلٹ کھائیے۔ورنہ میں رات کا کھانہ نہیں کھاونگا۔۔“
اسی اثنا میں اِس کی ماں کمرے میں آئی اور بولی”راجو ۔۔۔تمہاری بہن کے دانت میں بہت درد ہو رہا ہے۔بازار جاکر اس کے لئے دوائی لے آ۔“ جواب نہ دارد۔۔۔ماں نے پھر سے کہا تو یہ چِلّانے لگا۔”اوہ گارڑ۔۔۔کبھی پیٹ درد،کبھی دانت درد۔ جب دن بھر کھاتی رہتی ہے تو اور کیا ہوگا۔آرام سے بیٹھنے بھی نہیں دیتے ہو۔۔یہ لو پچاس روپیہ اور ابو کو بازار بھیجو یا خود جاکر فیاض کمپائونڈر کی دوکان پہ۔۔دوائی لے آ۔۔میں کام کر رہا ہوں۔۔۔۔“
ماں پچاس کا نوٹ لے کر چُپ چاپ کمرے سے نکل آئی۔اس کی آنکھوں میں آنسوں تیر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
شادی خانہ آبادی
ان کی دو بیٹیوں کی شادیاں ایک ساتھ ہورہی تھیں ۔دونوں میاں بیوی خوش تھے۔لیکن دونوں بیٹیاں شادی والی پوشاک میں ملبوس سروں کو جھکا کر مسلسل روئے جارہی تھیں تو ان کی پھپھی ان کے قریب آکر بولی” ارے اب رو رو کر سیلاب کا سامان پیدا کرو گی کیا۔۔ہر لڑکی کو ایک دن جانا ہوتا ہے بابل کا گھر چھوڑ کر۔۔۔اور پھر چالیس سال تک تو یہں اس گھر میں ۔۔اب باقی زندگیاں سسرال میں آرام سے گزارنا۔۔۔۔“
وہ دونوں پھپھی کو دیکھنے لگیں۔جس کی باتوں سے دلاسہ کم طعنے زیادہ نکل رہے تھے نشتر کی طرح۔۔وہ دونوں اندر ہی اندر سوچنے لگیں۔۔کہ ہمارے والدین غریب تھے تو وقت پہ ہماری شادی نہ کر سکے۔۔پھپھی کے دونوں لڑکے ڈاکٹر اور انجینیر تو ہمارے ہم سن تھے ۔کیوں نہیں ہم دونوں کو ان کے ساتھ بِہایا ۔۔کیوں نہیں کی غریب بھائی کی مدد۔۔آج ہماری ڈھلتی عمر کا طعنہ دے رہی ہیں۔۔۔اور ان امیر قرابت دارو کو کیا خبر کہ ہم دونوں کے تن پہ یہ شادی کی پوشاکیں نہیں کفن ہیں۔۔انہوں نے شادی کے کارڑ پہ شادی خانہ آبادی کے سنہرے الفاظ تو پڑھ لئے۔مگر ان الفاظ کی روشنائی میں ہمارے ابو امی کا لہو ملا ہوا ہے۔۔۔
”ان کو کیا خبر کہ ہمارے والد نے اپنا مکان گِروی رکھ کر ہماری شادی کا سامان جمع کیا ہے۔۔فرمانِ رسولؐ تو تھا کہ پہلے اپنے قرابت داروں کے یہاں رشتہ ڈھونڈھو ۔۔اگر نہ ملے پھر رشتہ سے باہر تلاش کرو۔۔۔۔آج ہم چالیس کی عمر میں نہ بیاہی جاتیں۔۔بہت پہلے شادیاں ہو چکی ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔اگر “
سوچ سوچ کر وہ پھر سے آنسوں بہانے لگیں۔۔۔۔۔
حاجت
آج ان کے گھر میں قرآن خوانی کی محفل ہے۔رخسانہ بیگم بستر پہ دراز آرام فرما رہی ہے۔بشیر احمد بار بار حقہ کے کش لے رہا ہے۔دادی کونے میں بیٹھی ہے کمبل کے نیچے۔پندرہ سال کی رِدا اور چودہ سال کی حِنا صبح سات بجے سے تیاریوں میںلگی ہوئی ہیں ۔دونوں سویرے سے ایک ٹانگ پہ کھڑی ہیں۔گھر کی دیواروں کو دھونا۔آنگن کی صفائی۔آشپازوں کو سامان پہونچانا۔فرش کی صفائی۔سب کام نبھا رہی تھی دونوں۔شام ہونے لگی تو دونوں تھک ہار کے سُستانے کے لئے بیٹھ گئیں۔تو ماں بولی”سب کام ہو گئے نا ۔۔“؟
”ہاں امی۔سب کچھ ہوگیا۔اب بس مہمانوں کے آنے کی دیر ہے“رِدا اپنے ہاتھ سہلاتے ہوئے بولی۔تو کونے سے دادی نے آواز دی”بازار پھر سے تو نہیں جانا ہے۔سب سامان لے آئی نا۔۔۔؟“
”ارے ہاں دادی۔سات بار تو دن میں ہم بازار گئیں تھیں۔ سب کچھ لایا ہے ہم نے“۔حنا تیوری چڑھا کے بولی۔۔تو دادی نے لمبی آہ بھر کے اوپر کی طرف دیکھا اور گویا ہوئی”اب خدا سے دعا کرنا کہ جس حاجت کے لئے تمہارے باپ نے یہ قرآن خوانی کا اہتمام کیا ہے وہ حاجت پوری ہو۔رخسانہ کے پیٹ میں اس بار لڑکی نہیں لڑکا ہو۔۔میرا بیٹا بشیرا بے چارہ بے آسرا ہے ۔غریب ہے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کیونکہ اس کے پاس بیٹا نہیں ہے۔۔۔“ دونوں بچیاں معصوم نظروں سے دادی کی طرف دیکھنے لگیں۔
فلک اور پربت
فلک اور پربت ایک ہی محلے کے دو دوست تھے۔اسمِ مبارک ریاض اور صابر۔مگر قلمی نام فلک اور پربت کیونکہ دونوں شاعر تھے۔کام کاج دونوں کا کچھ نہیں،بس ایڈیو ،ٹی وی پہ کبھی کبھی مشاعرہ ہوتا تو یہ بھی جاتے تو تھوڑا بہت پیسہ مل جاتا۔شہر میں ہونے والے مشاعروں میں بھی آنا جانا ہوتا تھا۔دونوں محلے کے دوکانداروں سے نظریں بچائے پتلی گلیوں سے نکلتے تاکہ وہ پیسے کا تقاضہ نہ کریں۔ایک روز دونوں اپنے ہی محلے کے سرکاری اسکول کی طرف سے منعقد کئے گئے مشاعرہ میں شرکت کرنے گئے۔تو اسٹیج پہ آکر پربت صاحب اپنا انقلابی کلام پڑھنے لگے۔
”بچو آگے بڑھنا سیکھو۔۔۔پربت پر تم چڑھنا سیکھو۔۔۔۔“ اسی اثنا میں ایک موٹا لمبا آدمی اسکول کے اندر گھُس آیا اور دندناتے ہوئے پربت صاحب کی طرف بڑھنے لگا۔۔زور دار گھونسا کیا پڑا کہ پربت صاحب کا چشمہ آسمان کی طرف اچھلا اور پھر زمیں پہ گر کے دم توڈ گیا۔۔اب پربت بھی زمین پہ گِر چُکا تھا اور آدمی اس کے سینے پہ پیر دھرنے لگا” آ آ آ آ ارے ارے بھائی یہ کیا کر رہے ہو “ پربت گھبراتے ہوئے بولا تو موٹے آدمی نے جواب دیا ” گوشت خرید کے پیٹ بھرے دوسال ہوگئے اور پیسے دینے میں ٹال مٹول کر رہے ہو۔۔آج میں پائی پائی وصول کر کے رہوں گا ۔۔یہ کہہ کر اس نے دوسرا پیر بھی سینے پہ چڑھایا ”ارے ارے قصاب بھائی یہ کیا کر رہے ہو “ پربت گڑگڑاتے ہوئے بولا تو قصائی نے جواب دیا ” کچھ نہیں پربت پہ چڑھ رہا ہوں۔۔اب وہ پوری طرح سے اس کے سینے پہ کھڑا ہوا اور ارد گرد بیڑ میں کھڑے فلک کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگا اور بستہ سے رسی نکالی۔۔یہ دیکھ کر فلک تیزی سے بھاگنے لگا ۔۔تو پربت اسے روتے ہوئے آواز دینے لگا ”ارے فلک بھائی کہاں بھاگ رہے ہو ۔۔میری جان بچائو اس بھینسے سے“
تو فلک بھاگتے ہوئے بولا”۔۔۔۔ارے میں بھی اس کا قرض دار ہوں تین سالوں سے۔۔یہ مُوا پربت پہ چڑھ گیا ہے جوتوں سمیت۔۔رسی بھی نکالی ہے۔۔۔اب یہ پربت کی چوٹی سے فلک پہ کمند نہ ڈال دے ۔۔۔۔اس لئے میں تو چلااااااااااااااااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“