بلا عنوان-1
اسے شہر میں آئے ابھی ایک ماہ ہواتھا۔وہ سردیاں کاٹنے یہاں آئے تھے۔ اس کیساتھ اس کی گھر والی اوراس کی اپنی ایک بچی تھے ۔
بچی کے جی کلاس میں پڑھتی تھی۔ وہ دن میں اسی بچی کو پڑھاتا،تھوڑی دیر تفریح کرتا پھر اخبار پڑھتا یا نیٹ چلاتا۔۔۔۔ آج جمعہ کا دن تھا۔۔ بچی بولی پاپا آج میں پڑھائی نہیں کروں گی۔۔ اس نے پیار بھرے لہجے میں بچی سے پوچھا کیوں بیٹی تو بچی بڑی معصومیت سے کہنے لگی۔ آج جمعہ کا دن ہے آج ہڑتال ہے تومیںآپ کے پاس پڑھنے کیسے آوں گی۔۔؟
بلاعنوان-2
جب تک ان سب کو آپس میں نہ لڑایا جائے بات نہیں بنے گی۔۔ '' آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو نہ چاہتے ہوئے بھی پیچھے مُڑ کر ایک بار دیکھ لیا۔ایک بارعب شخص بڑے تاؤ سے چند لوگوں کو ہدایت دے رہے تھے۔۔۔ یہ کل پانچ آدمی تھے جن میں دو لوگ بہت شریف النفس بھی لگ تھے۔۔
یہ اس قصبے کے ایک ہوٹل کا واقعہ تھا، جہاں میں نیا نیا دو پیسے کمانے کی نیت سے گیا تھا۔۔ میں چونکہ پردیسی تھا تو وہ لوگ مجھے نظر انداز کر رہے تھے۔
''ٹھیک ہے جناب کچھ سوچنے کا موقع دیں۔ '' ان میں کا ایک بولا۔
''لیکن جو کرنا ہے جلدی کریں وقت بہت کم ہے۔۔ '' وہی بارعب شخص پھر بولا تھا شاید۔۔
پھر وہ لوگ بیٹھے باتیں کررہے تھے میں جلدی وہاں سے نکل آیا مجھے کام پر جانا تھا۔
تیسرے دن عید تھی۔ میں عید گاہ میں تھا۔ امام صاحب مسلکی تشدد پر زبردست تقریر فرما رہے تھے اور چند لوگوں کو کافر ٹھرا کر ایسے لوگوں سے کوئی لین دین نہ کرنے کی تلقین فرما رہے تھے۔۔۔۔ عید کے دن یہ سب باتیں مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ اچانک مجھے لگا اس امام سے میں کہیں ملا ہوں۔ پھر مجھے ہوٹل والا واقعہ یاد آیا۔ارے ہاں یہ امام بھی تھا وہاں۔ یہ وہی شخص ہے جو کہہ رہا تھا ''کچھ سوچنے کا موقع دیں۔ '' آواز بھی ملتی ہے۔ یکایک میری نظر دیوار پر لگے پوسٹروںپر گئی وہاںاسی بارعب شخص کے پوسڑلگے تھے جن پرلکھا تھا اپنا قیمتی ووٹ دے کر ہر دل عزیز امیدوار کو مونسپل چناؤ میں جیت دلایں۔ ہوٹل میں ان اشخاص کی گفتگو سے لیکر عید گاہ میں امام صاحب کی تقریر تک کی ساری کہانی میرے دل و دماغ پر اظہر من الشمس تھی۔۔۔