اعتماد
میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں طارق سے دوری اختیار کروں گی۔۔۔مجھے معلوم ہوگیا کہ عورت کی محبت،اس کی قربانی اور وفا پرستی مرد کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی وہ صرف اپنے لیے اور اپنی زندگی کے لیے جیتا ہے۔۔ اور۔۔۔۔ عورت اپنی زندگی اپنی اولاد پر نچھاور کرتی ہے۔اب مجھے اپنے بچے کے لئے جینا ہے۔طارق نے اسی دن میرے خواب مجھ سے چھین لئے جس دن اس نے میری جگہ کسی اور عورت کو رکھ کرمجھے اپنی زندگی سے بے دخل کیا۔میں نے حالات سے سمجھوتا ضرو رکیا لیکن اب میرا بچہ میرے ہاتھوں کی ہتھکڑی نہیں بلکہ میری طاقت بنے گا۔میں اسے اپنے سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور بنائوں گی تاکہ اسے کسی پر اندھا اعتماد کرنے کی نوبت پیش نہ آئے۔
سنگ دل
اس روز میں بھی ناگرچوک سے کچھ ہی دور تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہو ا۔یوں محسوس ہوا کہ کس نے مجھے دھکا دے دیا اور میں بھی دھما کے کی زد میں آگیا ہوں۔موت میرے آنکھوں کے سامنے رقص کر رہی ہے۔اچانک لوگوں کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ میرے اردگرد لوگ بھاگ رہے ہیں ۔۔۔چیخ رہے ہیں۔۔۔ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں ۔ان آوازوں سے مجھ لگا کہ میں زندہ ہوں۔
میں بھی تیزی سے اٹھا اور ایک طرف بھاگنے لگا ۔بھاگتے بھاگتے میں ایک سڑک کے کنارے رک گیا ۔سامنے ایک عوت کھڑی تھی مدد کے لئے پکار رہی تھی، اس کی آغوش میں ایک چھ سال کا بچہ زخمی حالت میں پڑا تھا ۔اس لمحے میری کانوں میں یہ صدا آئی بھاگو۔۔بھاگو۔۔بھاگو ۔۔ایک اور دھماکہ ہوسکتا ہے ۔۔۔ اس آواز نے میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔۔وہ عورت میری طرف روتے روتے بولی ۔۔بھائی میرے بچے کو ہسپتال پہنچا دو۔۔۔خدا را میرے بچے کو بچا لو۔۔۔لیکن مجھے اپنی جان بچانے کی فکرتھی ۔میں نے اس عورت کی فریاد کو سنی ان سنی کردیا۔بھاگتے بھاگتے میں سوچ رہا تھاکہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو میرے بچے یتیم ہوجائیں گے۔اس منفی سوچ نے مجھے بے حس بنادیا اوربھاگتے بھاگتے میں نے دیکھا کہ کئی لوگ اپنی جان کی پرو ہ کیے بغیر زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر ایمبولینس میں ڈال رہے تھے ۔مگر میں اتنا بے رحم نکلا کہ کسی زخمی کی آہ اور کسی ماں کی فریاد نے مجھ سنگ دل کو موم نہیں کیا۔۔۔۔
بڑے لوگ
آج میں نے صبح سویر سے آفتاب بازارسے نکلے ہوئے دو بچوں کو دیکھا۔۔۔جن کے کندھوں پر بیگ تھے۔میرے اپنے دو بھتیجے بھی اسی طرح گھر سے نکلتے ہیں۔ریان اور شیان کے کندھوں پر بیگ ہوتے ہیں۔دونوں خوشی خوشی اسکول جاتے ہیں۔ان کے چہروں پر چمک ہوتی ہے۔۔آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں۔۔۔لب مسکان سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔میں نے کبھی دوسروں کے بچوں پر غور نہیں کیا تھا۔آج میں نے صبح آفتاب بازارسے نکلے ہوئے دو بچوں کو دیکھا۔۔ان کے بھی چہروں پر خوشیوں کی رمق تھی ،لبوں پر مسکراہٹ تھی مگر کندھوں پر ماچس بیچنے والے بیگ تھے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے بڑے لوگ تھے۔