لاپتہ
ہسپتال میں جلتے ہوئے چراغ نے کہا:
’’میں بڑا ہوں میں نے اس ہسپتال کانام روشن کیا ہے،اگر میں نہ ہوتا تو ہسپتال اندھیر میں ڈوب گیا ہوتا اور لوگ اس ہسپتال میں آنا بند کردیتے اور نہ جانے کتنے مریض موت کے گھاٹ اُتر جاتے‘‘
قبرستان میں روشن چراغ نے کہا:
’’میں کتوں کو لاشوں کے ساتھ بے حرمتی نہیں کرنے دیتا ہوں۔میں گھپ اندھیرے میں پورے قبرستان کی حفاظت کرتا ہو،اس لئے میں بڑا ہوں‘‘
جھونپڑی میں جلتے ہوئے چراغ نے کہا:
’’میں غریب بچوں کی جھونپڑی میں جہالت کے اندھیرے کو دور کرتا ہوں،اس لئے میں تم دونوں سے بڑا ہوں۔اسی دوران آسمان پر ابرتیرہ چھا گیے ،تیز آندھی کے جھونکے آئے اور تینوں چراغ بجھ کر لاپتہ ہوگئے۔‘‘
سورج
فروری کے اختتامی دن تھے مگر اس سال موسم سرما کا مزاج خاصا خوفناک دکھائی دیتا تھا۔ابھی تک فضا دھند کی لپیٹ میں تھی ۔مجھے اسی لیے سخت حیرت کا احساس ہواتھا کہ اتنی صبح وہ لوگ مجھ سے ملنے کیوں چلے آئے تھے۔ایک بات تو طے تھی کہ وہ بری خبر لاے ہوں گے۔وہ کل تین آدمی تھے او رتینوں کے چہروں پر گہر ی اداسی نظر آتی تھی ۔میں نے انہیں بیٹھنے کے لیے کہا، پھر سوالیہ نظر سے باری باری ان کی صورتوں کا جائزہ لینے کے بعد پوچھا۔۔۔
’’ہاں بھائی۔۔۔کیا معاملہ ہے‘‘
’’معاملہ بڑا خطرناک ہے جی۔۔ان میںسے ایک نے گہری سنجیدگی سے کہا ۔۔اسی لیے صبح ہی ہم جہلم سے چل کرآپ کے پاس پہنچے ہیں۔‘‘خوفناک سائے تو تم تینوں کے چہروں ہی سے جھلک رہے ہیں۔۔میں نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔اب ذرا جلدی سے بتائو اس خوفناک معاملے کی تفصیل کیا ہے؟
’’سلا م دین نے نہر میں سے ایک لاش پکڑی ہے۔وہ اپنے ساتھی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عجیب سے لہجے میں بولا۔۔لاش پکڑی ہے کے الفاظ اس نے ایسے اداکیے جیسے کوئی مچلی پکڑنے کا ذکر کررہا ہو۔میں اس شخص کی طرف متوجہ ہوگیا جسکی طرف اشارہ کر کے اس نے لاش پکڑنے کی بات کی تھی۔۔۔اچھا۔۔’’تو تم سلام دین ہو؟ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔‘‘ جی۔۔۔جی ہاں۔۔اس نے مسکین سی صورت بنا کرجواب دیا۔۔۔سلام دین تم نے لاشیں پکڑنے کا کام کب سے شروع کردیا؟ میں نے پوچھا۔۔اس سے پہلے کہ سلام دین کوئی جواب دیتا ،۔۔۔پہلے والا شخص بول اٹھا۔۔صاحب ۔۔’’سلام دین ہمارے جہلم کا مشہور مچھیرا ہے۔یہ روزانہ صبح جہلم سے مچھلیاں پکڑنے جاتا ہے مگر آج صبح مچھلیوں کے علاوہ وہ ایک انسانی لاش بھی اس کے جال میں پھنس گئی۔۔۔ایک نوجوان کی لاش جس کی جیب سے ایک پرچی نکلی۔۔جس پر لکھا تھا۔۔۔۔سورج کب طلوع ہوگا۔۔۔ ! ‘‘