ٹریننگ
محکمہ کے اعلی حکام کی طرف سے دس دن کا ٹریننگ شیڈول جاری کیا گیا تھا ۔ ندیم بھی، جو سماجی بہبود محکمے کا ملازم ہے، اس فہرست میں شامل تھا ۔ ٹریننگ کے لئے ریاست سے باہر جانا تھا ۔ ندیم نے اپنا الگ منصوبہ بنایا تھا۔ اپنی عمر رسیدہ ماں، بیوی اور بچوں سمیت جموں جانے کا کیونکہ سرما میں ندیم کی والدہ اور اہلیہ دونوں اکثر بیمار ہوجاتے ہیں ، اس لئے سرما کی شدید سردی اور بیماری سے بچنے کے لئے ندیم نے سرمائی ایام جموں میں گزارنے کا منصوبہ پہلے ہی مرتب کیا تھا۔۔۔۔۔
ٹریننگ کینسیل کرنے کے لئے ندیم نے اعلی حکام کا بھی رخ کیا ۔ جہاں تک اسکی پہنچ تھی اپنا اثرورسوخ استعمال میں لایا لیکن ہر ایک آفیسر نے اس کی عرضی ٹھکرادی ۔ ندیم نے متعلقہ وزیر سے ملنا بھی مناسب سمجھا لیکن وہاں سے بھی اسکو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ٹریننگ میں حصہ نہ لینے کی صورت میں ندیم کو اپنے آفیسروں نے تادیبی کاروائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے ،کی بھی دھمکی دی ۔۔۔۔۔۔
اب گھر کے تمام افراد اسکی ماں، اہلیہ اور بچے پریشانی میں مبتلا ہوئے کہ کس طرح ندیم کو ٹریننگ سے چھٹکارا دلایا جائے ۔ آخر کار اسکی بیوی کو ایک خیال آیا کہ کسی طریقے سے کووڈ پازیٹیو رپورٹ حاصل کی جائے تاکہ ایک ٹھوس بہانہ مل جاسکے ۔ جب ندیم نے بیوی کی بات سنی تو اگلی صبح ہی وہ قصبے کی مشہور لیبارٹری کے منیجر سے ملا ۔ آدھے گھنٹے میں ہی وہ اپنی کووڈ پازیٹیو رپورٹ لے کے گھر واپس پہنچا ۔ اسی دن جب اس کی بیوی نے درخواست اور کووڈ پازیٹیو رپورٹ آفیسر کی میز پر رکھ تو اس نے کہا ۔۔۔۔
مہربانی کر کے اپنے میاں کو گھر سے باہر نکلنے ہی نہ دیں ، اس کے بغیر بھی یہاں کام چلے گا ۔ بس آپ اسی کا خاص خیال رکھیں ۔ یہاں اس کے آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب ہمیں ضرورت محسوس ہو جائے تب ہی اسکو یہاں آنے دیں ۔۔۔
دو روز بعد ہی ندیم اپنی ماں اور بیوی بچوں سمیت جموں کی طرف روانہ ہوا ۔
رہبر تعلیم ٹیچر
حکومت کی طرف سے پورے ضلعے میں میگا اینرولمنٹ مہم کا آغاز ہوا ہے اور اس حوالے سے حکام کی طرف سے سخت احکامات پہلے ہی صادر ہوئے ہیں ۔ صمد صاحب، جو بائز مڈل اسکول کے ہیڈماسٹر ہیں، نے بھی اپنے اسکول میں ضلع کے دیگر اسکولوں کی طرح یہ مہم چلانے کرنے کے لئے اساتذہ پر زور دیا ۔ سبھی اساتذہ صاحبان متحرک ہوگئے ۔ اسکول میں دو رہبر تعلیم اساتذہ سمیت کل دس اساتذہ ڈیوٹی پر معمور تھے ۔ ایک ہفتے تک اساتذہ کو اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے کے لئے مہلت دی گئی ۔ ایک ہفتے بعد صرف دو رہبر تعلیم اساتذہ نے پندرہ بچوں کا اندراج اپنے اسکول میں یقینی بنایا اور باقی اساتذہ نے صرف ایک یا دو دو بچوں کا داخلہ اسکول میں ممکن بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہیڈماسٹر صاحب نے اساتذہ سے وجہ پوچھی تو یہ بات سامنے آئی کہ رہبر تعلیم اساتذہ اصل میں اسی گاؤں کے باشندے ہیں جہاں پر اسکول واقع ہے۔ تمام والدین اور گاؤں کے باقی باشندوں کے ساتھ ان کا رہن سہن اور ملنا جلنا روز کا معمول ہے ۔ اس لئے اسکول میں بچوں کے رول میں اضافہ ان ہی سے ممکن ہے باقی اساتذہ دوردراز علاقوں میں مقیم ہیں اور یہاں ان کی تعناتی ہے ۔ اس لئے وہ اسکول میں بچوں کے اندارج کرانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے ۔۔۔