منتیں
’’نہیں نہیں مالک ایسا نہ کیجئے ۔۔۔معاف کر دیجئے ۔۔۔میں آپ کی منتیں کرتا ہوں ۔۔۔میں بوڑھا ہوچکا ہوں ۔۔۔اس لئے گلاس ٹوٹ کر گر ا ۔افسردہ اَحدجُو ہاتھ جوڑ کر باسط سے گزارش کر رہا تھا لیکن باسط یک دم بول پڑا ــ ’’تمہاری منتیں مجھ پر اثر نہیں کریں گی ۔ میرے یہاں کسی بھی غلطی کی گنجائش نہیں ۔ اپنا سامان سمیٹو اور چلتے بنو۔‘‘
بوڑھا اَحدجُو ابھی مڑا ہی تھا کہ فون کی آواز اُس کے کانوں میں گونج اُٹھی جو اسکے مالک سے قدرے دوری پر تھا۔ اس نے مناسب جانا کہ پہلے مالک کو فون لا کر دوں۔چناچہ اس نے ایسا ہی کیا اور باسط نے فون کا بٹن دبا کر کان پر لگا کر کہا’’ہیلوسر! کیسے ہے آپ۔۔‘‘
’’میں تو ٹھیک ہوں باسط میاں لیکن اب تمہاری خیر نہیں ۔۔۔تم نے مجھے بنا بتائے کمپنی کے اکاونٹ سے ڈھائی لاکھ روپے نکالے اور تمہیں لگا کہ مجھے پتا بھی نہیں چلے گا۔‘‘
’’سر وہ۔۔۔‘‘
’’چپ ہو جائو! اور میری بات کان کھول کر سن لو۔۔۔کل صبح دس بجے سے پہلے پہلے میرے ٹیبل پر میرے ڈھائی لاکھ روپے تمہارے استعفے کے ساتھ پہنچ جانے چاہئیں۔ ورنہ مجھے جیل جانے کے لئے تیار رہنا۔‘‘
’’نہیں سر! ایسا نہ کیجئے مجھے معاف کر دیجئے ۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوگئی ۔۔۔میں آپ کی منتیں کرتا ہوں۔‘‘
’’تمہاری منتیں مجھ پر اثر نہیں کریںگی ۔ میرے یہاں غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں ۔استعفیٰ دو اور میری کمپنی سے دفع ہو جائو۔‘‘
باسط مایوس کن انداز میں فون ٹیبل پر رکھ کراحدجُو کو دیکھنے لگا اور احد جُومعصومانہ انداز میں بول پڑا ’’کیاہوا مالک؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘
اعتماد
ڈائنگ ٹیبل پر براجمان جمال اور شائستہ کے والد نے اپنے فرزند سے مخاطب ہو کر کہا’’کل جس رشتے کی بات میرا دوست اسلم کر رہاتھا، مجھے وہ مناسب لگا ۔ویسے وہ کافی پیسے والے لوگ ہیں ۔اس لئے کل اسلم سے مل کر بات آگے بھڑانے کا کہوں گا۔‘‘ جمال فون پر میسج ٹائپ کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر بولا’’ہوں۔‘‘
چند منٹ بعد خاموشی کو توڑتے ہوئے جمال کی ماں نے اپنے خاوند سے کہا’’ میں نے مانا کہ ان کے پاس بے شمار پیسہ ہے لیکن خود لڑکا بے کار و بے روزگار ہے۔ اسکی اپنی کوئی حیثیت نہیں اور نہ وہ پڑھا لکھا ہے۔ ہماری بیٹی نے توایم ایس سی کر رکھا ہے ۔یہ تو بے جوڑ رشتہ ہوگا ۔‘‘
جمال کا باپ حقارت آمیز لہجہ میں بیوی سے بول پڑا ’’ارے تم کیسی فضول باتیں کرتی ہو۔جب اس کے پاس باپ دادا کا کمایا ہوا اتنا پیسہ ہے تو اسے پڑھائی لکھائی اور کام کاج کی کیا ضرورت ۔۔۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔صرف پیسہ دیکھ کر ہم رشتہ کیسے جوڑ لیں ۔خود شائستہ کو بھی یہ رشتہ اعتماد کے لائق نہیں لگاــ۔‘‘ ماں بولی
’’کیا مطلب اعتماد کے لائق نہیں لگا؟ کیا اسے اپنے باپ پر اعتماد نہیں ؟ یا وہ اپنے باپ کو اعتماد کے لائق ہی نہیں سمجھتی؟ جمال غصہ سے لال پیلا ہو کر تیز ترار لہجہ میں بول پڑا
پوری زندگی کی خاموشی توڑتے ہوئے شائستہ زہریلی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر بولی’’جمال بھائی! جہاں تک مجھے یاد ہے ،آپ نے اپنے لئے رشتہ خود منتخب کیا اور جب ابا نہیں مان رہے تھے تو آپ نے ابا کو خود کشی کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔۔۔کیا آپ کو اپنے باپ پہ اعتماد نہیں تھا؟ یا آپ اپنے باپ کو اعتماد کے لائق ہی نہیں سمجھتے تھے؟۔۔۔‘‘
طوائف
’’چھٹی کا دن ہے اور تم صبح سے صرف ٹی وی دیکھ رہے ہو۔‘‘
’’تو اب کیا کروں؟‘‘
’’ہفتے میں ایک ہی دن تو ہوتا ہے جب تم فارغ ہوتے ہواور تم اِس دن بھی مجھے وقت نہیں دیتے۔تمہیں میری خوشی کا ذرا بھی خیال نہیں ۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔تو اب میں کیا کروں، تمہیں خوش کرنے کے لئے۔۔۔ایک ٹانگ پر مجرا کروں؟‘‘
’’تم طوائف تھوڑی ہو جو مجرا کرو گے،میں بس بول رہی تھی کہ چھٹی کا دن ہے،ٹی وی سے نظریں ہٹا کر کبھی مجھے بھی دیکھ لیاکرو۔‘‘
’’ذرا خاموش ہو جائو۔۔۔آیٹم سانگ آرہا ہے ۔۔۔ مجھے دیکھنے دو۔‘‘
’’تمہیںآیٹم سانگ میں دلچسپی ہے اور مجھ میں نہیں۔‘‘
’’ارے میری جان ۔۔اب ایسا بھی نہیں۔۔۔دراصل یہ ہیروئن مجھے بہت ہی زیادہ پسند ہے ۔میں نے سنا ہے کہ اِس کا ایک نیا زبردست سانگ آرہا ہے ۔ اس لئے اتنا اُتاولا نظر آ رہا ہوں ۔۔۔سمجھی؟‘‘
’’ہاں !آج تو میں سمجھ ہی گئی۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ آج تم نے مجھے سمجھا دیا کہ مرد شادی کے لئے بھلے ہی ایک شریف اور باحیا عورت کو منتخب کرتا ہو مگر اس کی پسند اور توجہ کا مرکز ہمیشہ طوائف ہی رہتی ہے۔‘‘
سرینگر ،کشمیر،[email protected]