شکیل مصطفیٰ
ہاتھی کے دانت
جمیل الیکٹرک کے سامان فروخت کرتا تھا۔ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا مگر بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو بے وقوف بنا لیتا تھا۔ جب الیکٹرک سامان کی مانگ بڑھ گئی تو اس نے جمیل انڈین الیکٹرک کے نام سے دکان شروع کردی۔ اب اس کا دھندہ خوب چلنے لگا۔ حج بھی کرلیا۔ اب وہ نام سے پہچانا جانے لگا جمیل انڈین۔
ٰٰٰٓٓٓٓٓایک دن ماسٹر زید اُس کی دکان پر پہنچے اور کہا کہ گھر کا بجلی کا میٹر شاید بند ہوگیا ہے۔ ذرا درست کردیجئے یا کسی مزدور سے کروادیجئے۔ جمیل انڈین نے اپنی کھچڑی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ میں حج کرکے آیا ہوں۔ اب میں بجلی میٹر کا کوئی کام نہیں کرتا البتہ آپ کا کام ضرور کسی مزدور سے کروادوں گا۔ دوسرے دن مزدور گھر آیا اور بجلی میٹر درست کردیا اور کہا کہ محنتانہ 2500روپئے ہوئے۔ تب ماسٹر زید نے کہا کہ اتنی رقم ہوتی ہے کیا؟ اور تم مزدوری اتنی لو گے تو مزدور کہنے لگا۔ سب رقم مجھے تھوڑی مل رہی ہے؟ ماسٹر زید نے کہا پھر رقم کسے ملے گی؟ تب مزدور نے کہا کہ آپ صرف پھل کھائیے اور ماسٹر صاحب آپ زمانے کو نہیںجانتے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے الگ ہوتے اور دکھانے کے لیے الگ۔ ماسٹر زید کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ کارنامہ کھچڑی داڑھی کا ہے۔
کڑوی سچائی
جنازہ ہال میں مرحوم کے ایصال و ثواب کی فاتحہ خوانی ہوئی۔ بعد فاتحہ خوانی کے ایک نہیں بلکہ کئی مصائب نے ہاتھ اٹھا کر کہا کہ مرحوم کے اہل و اعیال کے لیے ایک وقت کی بھاتی، کسی نے ناشتہ اور دو وقت کی روٹی کی بات سرعام کہی۔ ماسٹر زید حیران تھے کہ اتنے فراخ دل تو کبھی دیکھے نہیں تھے کیا ہی اچھا ہوتا کہ مرحوم جب حیات تھے کوئی پرسانِ حال نہ تھا نہ کوئی دوا کے متعلق کہتا کہ میری طرف سے۔۔
مالیگاؤں،
موبائل نمبر؛ 9145139913