بلا عنوان
چل یار آج ہوٹل وکٹوریہ چلتے ہیں وہاں آج بڑے بڑے لوگ آئیں گے۔۔۔۔دعوت نامہ تو ہم کو مل گیا ہے چلیں آج اسی بہانے بڑے بڑے نامور قلمکاروں سے ملاقات کریں گے۔
وہاں آج غریب کشمیری کی کتاب۔۔۔ میں اور تو۔۔۔۔۔ کی رسم رونمائی ہوگی۔ سنا ہے بہترین، دلنشین اور خوبصورت کتاب لکھی ہے۔ چلو چلتے ہیں۔
دونوں دوست ہوٹل وکٹوریہ کے گیٹ کے قریب پہنچے۔ایک دوست نے دوسرے سے کہا۔ جیب میں کتنی رقم ہے۔
کس لئے۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے دوست نے پوچھا۔
کتاب خریدنے کے لئے اور کس لئے۔۔۔۔
کتاب خریدنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔میں تو سمجھا تھا کہ۔۔۔
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد پہلے دوست نے کہا۔۔۔
چل یار چھوڑ۔ جانے بھی دے ۔۔۔۔۔۔ ریستوران ڈیلایٹ میں انجوائے کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
پاپ
آج اس نے جینز اور ٹی شرٹ کی بجائے ا پنا پسندیدہ خان ڈریس اس لہے پہنا کہ اپنی گرل فرینڈ کو نئے سال کی آمد پر سرپرائز دے۔ اس نے لباس پہنا سر پر سفید گول ٹوپی رکھ لی گلے میں مفلر لٹکایا اور گھر سے نکلا۔۔۔۔
رستے میں بہت سارے لوگ جمع تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔۔۔۔گاو ماتا کی جے۔۔جے بجرنگ بلی۔۔۔۔گائے ہماری ماتا ہے۔۔۔۔وہ توڑ پھوڑ کررہے تھے۔۔گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کررہے تھے۔ ان میں سے کسی کی نظر خان ڈریس پہنے خوبرو نوجوان پر پڑی۔۔۔۔یہ سالا حرامی ہمارا دشمن ہے۔ پکڑو اور مارو۔ کسی نے اس کا منہ مفلر سے بند کیا اور دوسروں نے اس پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کی۔ وہ ادھ مرا سڑک پر گر پڑا۔۔۔۔۔سالے کو ننگا کرو۔
ان کے لیڈر نے حکم دیا۔۔۔ اس کے ننگے جسم کو دیکھ کر ایک غنڈے کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔ گرو گجب ہوا پاپ۔۔ گور پاپ ہوا ہم نے اپنے ہی بھائی کو قتل کر ڈالا۔۔۔
چرسی
غنہ چرسی، جو محلے میں بہت بدنام تھا، مسجد کے نزدیک والے کوچے سے قہقہے لگاتے ہوئے گزر رہا تھا اور ایک خالی ٹین کے ڈبے کو ٹھوکریں مارتا ہوا لڑکھڑا رہا تھا۔۔۔۔مسجد کے اندر عشاء کی نماز کے بعد انتظامیہ کمیٹی کی میٹنگ ہورہی تھی ۔۔۔۔نیا امام کم سے کمتنخواہ پر تعینات کرنے پر غور وخوض ہورہا تھا ۔صدر نے زور دے کر کہا امام کو ہمارے تابع رہنا پڑے گا۔ہم اسے اپنی من مانی کرنے نہیں دیں گے۔۔سبھی اراکین اس بات پر متفق ہوئے۔ مجلس برخواست ہوئی۔۔۔ ایک کارکن نے باہر جانے سے پہلے مسجد کا جائزہ لیا۔۔۔۔۔۔ایک ادھیڑ عمر کا شخص ایک کونے میں گھٹنوں میں سر دبائے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔کارکن نے گرج دار آواز میں کہا۔ ارے او کون ہو تم؟ اُٹھو نکلو مسجد کے دروازے کو مقفل کرنا ہے۔
اس نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔میں ایک غریب مزدور ہوں۔ صبح گھر سے کام کی تلاش میں نکلا تھا مگر کہیں کام نہیں ملا ۔میرا گھر بہت دور ہے اس لئے سوچا آج رات مسجد میں گزاروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سن کر مسجد کا صدر اس کے نزدیک آیا اور غصے سے کہا۔۔۔۔یہ خدا کا گھر ہے کوئی مسافر خانہ نہیں ہے۔ ہم یہاں کسی کو رات بھر رکنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔۔۔چلو اٹھو اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔
وہ مسافر لڑکھڑاتے ہوئے مسجد سے باہر نکلا۔۔۔۔تھوڑی دور تک چل کر وہ گر پڑا۔ غنہ چرسی دھیرے دھیرے چل رہا تھا اس نے اسے گرتے ہوئے دیکھا اور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ارے بھائی زیادہ مت پیا کرو میری طرح۔۔۔کنٹرول۔ کنٹرول۔۔۔۔مسافر دھیرے دھیرے کھڑا ہوا اور غنہ چرسی سے کہا۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں پیا ہے۔ میں صبح سے بھوکا پیاسا ہوں اسی لئے۔۔۔۔۔۔
اوہ اوہ تم بھوکے پیاسے ہو اور میرا پیٹ بھرا ہے۔ کیسا کمبخت ہوں میں۔۔۔۔چل میرے بھائی چل میرے گھر، تجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤں گا اور ہاں آج رات تم میرے مہمان ہو۔۔۔چل میرے بھائی چل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد سے نکلنے والے افراد میں سے ایک نے ان دونوں کو ساتھ چلتے دیکھ کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔لو آج غنہ چرسی پھر کسی اجنبی مسافر کو اپنے گھر لے جا رہا ہے۔۔۔
ہمدانیہ کالونی بمنہ سرینگر
موبائل نمبر; 9 419004094