نور شاہ
میری آواز سُنو
میں ایک کہانی کار ہوں لیکن میری کہانیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا کاش وہ نہ ہوا ہوتا۔ میری کہانیوں کے کردار میرے دیکھتے دیکھتے گمشدگی کا لباس اوڑھتے بچھڑ گئے اور شائد میری سوچ کی اُڑان سے اُوپر اُٹھ کر میرے وجود کے دلدل میں گم ہوگئے۔ اب میری کُھلی کُھلی سی آنکھوں کی روشنی بجھ چکی ہے۔ بارش، بادل، دھوپ اور سائے میرے لئے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب مجھے موسموں کی سردی گرمی کا احساس نہیں ہوتا، شائد اسی لئے پھولوں کی مہک میرے لئے بے رس ہوچکی ہے۔
اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ میرے سامنے سجی سنوری اَن گنت ادبی اور تاریخی کتابیں بے جلد ہوکر منشیات کے قصے کہانیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔
اور میں؟
اور میں چاہتا ہوں کہ میرے گم شدہ کردار میرے وجود کی دلدل سے باہر آئیں اور میری کہانیوں کا حصہ بن کر منشیات کیخلاف اپنی آواز بلند کریں۔۔۔!
اپنی اپنی صلیب
جب میری تنہائیاں یاروں کی خاموشیوں سے اُٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگتی ہیں تو نوراں کی صورت میرے سامنے نمودار ہوجاتی ہے اور مجھے آہستہ آہستہ یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ میری تنہائیاں نوراںکی صورت اور نوراں کی تنہائیاں میری صورت اختیار کر چکی ہیں اور ہم دونوں ان خاموش اندھیروں میں یادوں کو بانٹنے لگے ہیں۔
’’تمہاری تنہائیاں میری ہیں اور میری تنہائیاں تمہاری۔۔۔ لیکن؟‘‘
’’لیکن کیا نوراں؟‘‘
’’ان تنہائیوں میں ذرا سی دوری ہے!‘‘
’’کیسی دوری؟!‘‘
’’میں بستر کے اندر تنہا ہوں اور تم قبر سے باہر تنہا ۔!‘‘
میرے خواب کہاں ہیں
اپنی بیگم کی وفات کے بعد میر صاحب کو یہ احساس ہونے لگا کہ بیٹے اور بہو کے ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا اور اکیلا رہ گیا ہے اور اب خالی خالی بے خواب تنہائیوں میں گھر کی کسی چیز کسی شئے میں اپنائیت کا احساس نہیں ہورہا ہے۔ گھر کی دیواریں بے رنگ لگ رہی ہیں۔ گھر کے اندر باہر کی آوازیں بے سُری لگ رہی ہیں۔ اپنی زندگی کے سرد و گرم، نرم و تلخ زاوئیوں سے گزرنے کے بعد اپنا منہ بند رکھنا اب اُس کی اَن دیکھی سوچوں کا حصہ بن چکا ہے۔ بیٹا اور بہو جب دیر گئے گھر لوٹتے تو اُن کی بات کا جواب دینا میر صاحب کے لئے مشکل صورت حال کی جانب ایک واضح اشارہ تھا۔
وہ دونوں ایک ساتھ یا کبھی کبھار الگ الگ ایک ہی بات کہتے ۔۔۔۔!
’’آج آپ دن بھر کیا کرتے رہے؟!‘‘
لل دید کالونی گوری پورہ لنک روڑ راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛99066771363