خوف کے سائے
وہ اپنی بیٹی کے لئے کسی کو رشتہ لانے کا نہ کہہ سکتی تھی اور نہ ہی اپنے بیٹے کے لئے کسی کی بیٹی سے رشتہ مانگ سکتی تھی کیونکہ اُس ایک احساس خوف تھا ۔نوکرانی کے بیٹی کو کوئی بیاہ کرکے نہیں لے جاسکے گا اور بیٹے کو نوکرانی کا بیٹا سمجھ کر اپنی بیٹی نہیں دے سکے گا ۔ دوسر ی طرف معاشرے کے لوگ نوکرانی کے بیٹی اور بیٹے کی خوبصورتی اور اخلاقیت سے محظو ظ تو ہوتے تھے اور دبی زبان میں تعریف کی سرگوشیاں بھی کرتے تھے لیکن لوگوں کے تانوں کے خوف سے نہ نوکرانی کی با اخلاق اُمور خانہ داری میں ماہر بیٹی کو بیاہ کر لاسکتے تھے اور نہ اُ س کے خو دکفیل‘ خود دار بااخلاق بیٹے کو کوئی اپنا داماد نہیں بنا سکتے تھے۔
لنگڑا یقین
وہ اُسے سر سے پائوں تک دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔’’تمہیں بُرا نہیں لگتا؟‘‘اُس کی سمجھ میں سوال آگیا۔اُس نے کہا ۔’’نہیں ۔۔۔ بالکل بھی بُرا نہیں لگتا۔‘‘وہ پھر سے حیرت اور تعجب سے پوچھا۔’’ سچ کہہ رہے ہو۔۔۔بالکل بھی بُرا نہیں لگتا!‘‘اُس نے مسکراتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔’’یقین کرلو۔۔۔خدا کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوںبالکل بھی مجھے بُرا نہیں لگتا۔‘‘وہ پھر سے بے یقینی سے بڑ بڑانے لگا۔’’مجھے یقین نہیں ہورہا ہے کہ تمہیں بالکل بھی بُرا نہیں لگتا!‘‘اُس نے ہلکے سے قہقہے کے ساتھ پُر اعتماد لہجے سے کہا۔’’جس کا یقین لنگڑا ہو اُس کے ساتھ یہ لنگڑا لنگڑی دوستی نہیں کرسکتا!‘‘یہ کہتے ہوئے وہ بغیر سہارے کے لنگڑتا ہوا ایک جانب چل دیا۔
اورنگ آباد،مہاراشڑ
موبائل نمبر؛9529077971