جاڑے کی برف باری
دسمبر کی اک صبح ہم سب کچن میں بیٹھے ابھی چائے ہی پی رہے تھے کہ وہ آگیا۔
“کیس۔سے ہو۔و جاڑے؟” دادا جی نے کمبل سے منہ باہر نکالے بغیر ہی کپکپاتی آواز میں پوچھا۔
دراصل چچا جاڑے کی آمد نے کمرے کی آب وہوا ہی بدل دی تھی۔ چائے نے دیکھتے ہی دیکھتے پیالیوں میں برف کی ڈلیوں کی شکل اختیار کر لی، جس کے ٹھنڈے گھونٹ ہم مہمان نواز ی کے جوش میں پی کر رہ گئے۔
ڈیجیٹل گھڑی میں البتہ درجہ حرارت کے خانے میں صفر کا سرخ عدد ٹمٹما کر خاموشی سے صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا۔
” ارے رحیمے! میں ٹھیک ہوں۔تو سنا۔اس سال تمہیں دیکھنے کی امید نہیں تھی۔” جاڑے نے میرے دادا سے مخاطب ہو کر کہا۔
” تیرے منہ میں خاک۔ابھی عمر ہی کیا ہے اس کی” دادی جی نے کانگڑ ی میں چمچہ ہلا کر کہا۔
” ارے بی بی! ناراض مت ہو۔ہا ۔ہا۔ہا مجھے لگا کہ کہیں جموں نہ چلا گیا ہو رحیم صاحب۔ہا۔ہا۔” چچا جاڑا کھسیانی ہنسی ہنس کر بولا
” جموں کیونکر جائے ۔وہاں میری سوتن بیٹھی ہے کیا؟ دادی تنک کر بولی۔
“چاچا جاڑا، تم برف باری کو ساتھ کیوں نہیں لائے” میں نے چاچا جاڑے کی کشمکش بھانپ کر گفتگو کا رخ موڑنے کیلئے بولا۔
” اس نے آنے سے انکار کردیا” چچا جاڑے نے جلدی سے جواب دیا۔
” تم ہی نہیں لائے ہوگے اسے ؟” دادی جی نے چچا جاڑے کو پھر سے آڑے ہاتھوں لیااور میں ان دونوں کی نوک جھونک سے بے پروا پرانی یادوں میں کھو گیا
برف باری۔۔۔۔وہ سب کی چہیتی تھی۔سفید کپڑے پہنے جب وہ ہر سال چچا جاڑے کے ساتھ آتی۔۔۔ ہم سب محلے کے بچے خوش ہو کر اس کے ساتھ کھیلنے لگتے۔۔۔کبھی گھر والوں کی آنکھ چھپا چھپا کر اس کے ساتھ سارا سارا دن گزارتے۔۔۔۔
” برف باری کہتی ہے کہ یہاں کا ماحول اب خراب ہو گیا ہے” چچا جاڑا سنجیدگی سے بولا۔
کیا اسی لئے وہ اب یہاں نہیں آتی، یہاں غلاظت اور عفونت بھرے ماحول میں۔پھر میرے تخیل کے پردہ پر اس کا وہ سفید کرتہ لہرایا جس پر وہ کبھی داغ نہ لگنے دیتی تھی۔
شاہ مال
جب دروازے پیچیدہ لاک سسٹم اور وزنی کواڑوں سے عاری اور عارضی طرز کے ہوا کرتے تھے تو برساتوں میں اکثر شاہ مال ہمارے آنگن کے دروازے کی کواڑوں کے بیچ لاٹھی گُھسا کر ،چوبی کنڈی گھماکر دروازہ کھول کر در انداز ہوتی اور مکان کے اندر گزرگاہ میں دروازے کے قریب اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتی۔اس کے بائیں ہاتھ میں ہمیشہ سفید رنگ کا تھیلا اور سرخ مٹی سے بنی کانگڑ ی رہتی ۔جبکہ دوسرے ہاتھ میں وہ لاٹھی اٹھائے چلتی جو اس کیلئے کہیں اوزار اور شاید کبھی ہتھیار کا کام انجام دیتی رہتی ۔ظاہری طور خود اس کی کمر ابھی لاٹھی کے سہارے کی محتاج نہیں تھی کیونکہ حساب لگاتے وقت اگر ستم زمانہ کی بوجہ اس کے چہرے پر ابھری جھریوں اور ہڈیوں کو مستثنیٰ رکھا جاتا تو اس کی عمر بمشکل چالیس بیالیس سال کی نکلتی۔اسی لئے تو ایک بار میری چچی نے اس کی شادی کرانے کی پیشکش کی مگر وہ روٹھ کر چلی گئی۔بارش میں بھیگتے ہوئے ۔۔غالباً کسی ایسی جگہ کی تلاش میں جہاں اسکا ہم سخن کوئی نہ ہو ،ہم زباں کوئی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بڑی حساس تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر برا مان جاتی۔اسی لئے بڑوں کی ہدایت کے مطابق ہم بڑے احتیاط سے بغیر شگاف والی پیالی میں اس کیلئے چائے لے جاتے۔چائے تو وہ پی جاتی تھی مگر روٹی تھیلے میں ڈال لیتی اور میں تصور ہی تصور میں اس کا وہ ادھ بھرا تھیلا قسم قسم کی روٹیوں سے آباد کر لیتا۔ایک بار میں نے اسے ایک اخروٹ دینا چاہا تو وہ برا مان کر بغیر چائے پیئے چلی گئی اور میں نادم ہو کر وہ اخروٹ ہاتھ میں دبائے کھڑا رہا۔وہ رات کو کہاں ٹھہرتی،کسی کو معلوم نہں تھا۔البتہ کئ لوگ اسے رات کے وقت ایک قریبی مقبرے میں دیکھنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ کسی نے یہ راز بھی افشاء کیاتھا کہ وہ سسرال سے نکالے جانے کے بعد میکے سے بھی بے دخل کر دی گئ تھی۔تو کیا اسی لئے وہ اس دن میری چچی کی بات کا برا مان گئ تھی؟کیا کسی بھیانک یاد نے اس کے لاغر جسم کو جھنجھوڑ دیا تھا؟۔۔۔۔۔یا پھر وہ ابھی تک کسی بندھن کے حلقۃ زنجیر میں جکڑی ہوئی تھی جو جاڑے کی سرد راتوں میں اس کے پاؤں قبرستانوں سے نکلنے نہں دیتی تھی؟ کئی سوال رفتہ رفتہ میرے ذہن میں جنم لیتے رہے مگر ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ “۔غازی یہ تیرے پراسرار بندے ”
دو دہائیوں سے میں نے شاہ مال کو نہیں دیکھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت پہلے مر گئی اور اس کی لاش کسی قبرستان میں پڑی ملی جہاں اسے بعد میں دفنایا گیا۔
مگر میرا تصور ایک شوگر فری ٹیبلیٹ کی مانند سچ کی چائے کی کڑواہٹ کو کم کرنے کے ناکام جتن کرتا رہا۔
اب زمانہ بدل گیا ہے ۔شاید شاہ مال کے رشتہ دار اس کے قدر شناس ہوگئے ہوں۔
یا پھر۔۔۔ شاید اب کوئی نئی دوائی بازار میں آگئی ہو۔۔ اس کے بے چین جسم کو آرام دینے کیلئے۔۔۔
لوگوں نے دروازوں پر اب لوہے کی مضبوط کنڈیاں بھی تو چڑھادی ہیں۔شاہ مال کی لاٹھی شاید خود اس کے دروازے پر بے اثر ہو
۔ شاید وہ سوکھ کر ڈھانچہ بن گئ ہو۔وہ روٹی بھی تو نہیں کھاتی
۔۔اور رشتہ دار خدا سے اس کا انجام بہتر کرنے کی دعا کے پس پردہ اس کیلئے قضا کے فرشتے کو چلا چلا کر پکار رہے ہوں اور پھر باہر قبرستانوں میں تو اب مردے بھی محفوظ نہیں، تو شاہ مال کو باہر کیسے چھوڑا جائے۔ اور شامت اعمال باہر میڈیا والوں نے دیکھ لیا تو جگ رسوائی بھی تو ہوگی ان کی۔۔۔۔
ان کے ہزاروں طرح کے وسوسے ایک طرف ، مجھے ڈر ہے کہ کسی نے شاہ مال کی تصویر کیمرے میں قید کرنے کی کوشش کی تو وہ روٹھ جائے گی۔
���
سوپور، بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛9419744094