ہلال بخاری
ہردوشورہ کنزر، ٹنگمرگ
احساس
ایک رات خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ایک راستے سے گذر رہا ہوں، آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھاتے ہوئے اور تو میرے آگے دوڑی جارہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تو جلد دور نکل کر میری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گی مگر ایسا نہیں ہوتا۔ تو بھاگے جارہی ہے، میں چلتا رہتا ہوں، مگر تو میری نظروں کے سامنے ہی ہے، غائب نہیں ہوتی۔ مگر ، فائدہ کیا؟ میں تجھے آواز دیتا ہوں ، تو مڑ کر نہیں دیکھتی، میں جانتا ہوں تو سن رہی ہے مگر تجھے مڑکر میری طرف دیکھنا گوارا نہیں۔
تو ہمیشہ ایسی ہی تھی تند مزاج ، الہڑ ، بد خو ، بے وفا ، ضدی ، سنگ دل ،مغرور اور ظالم مگر میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔
میں ترستا ہوں کہ تجھ میں کوئی عظمت پالوں مگر ایسی کوئی عظمت تجھ میں نہیں جس کی وجہ سے میں کہتا کہ میں اسکی وجہ سے تجھ سے متاثر ہوا۔ لیکن پھر بھی محبت سے سرشار ہو کر میرا دل تیری دہلیز پر سر خم کرتاہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ تو ظاہری حسن کا ایک بے نظیر پیکر ہے۔ میں سمجھ نہیں پاتا کہ آیا تیرے حسن نے میرے دل کو لبھایا یا میرے عشق نے ہی تیرے حسن کو چن لیا۔ کیا حسن ہی ہمارے دلوں میں عشق پیدا کرتا ہے یا عشق ہی کسی صورت میں حسن کو دل آویز اور دلکش بناتا ہے ؟ ان سوالوں کے جواب کہاں سے لاؤں ؟ تو سراپا اور سر تا پا ایک ہی چیز سے لبریز ہے جسے انا کہتے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو خوبیوں سے زیادہ خامیوں سے لبریز ہے۔ میں تمہاری ساری خامیاں جان کر اپنے دل سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں، “اب نہیں ، بہت ہوا ، اب اور غلامی نہیں۔”
مگر یہ ایک اولاد نافرمان کی طرح میری باتوں پر غور ہی نہیں کرتا اور بڑے فخر سے کہتا ہے، ” میں ہی تیرا والد ہوں، تو مجھے نہ سکھا۔” میں اپنی بے بسی میں خاموش ہوکر رہ جاتا ہوں۔ کہوں تو کیا کہوں؟
نہ تو اور نہ یہ، کوئی میری بات نہیں مانتا۔
میں جو بولتا ہوں تم اسکا الٹا کرتے ہو۔
جس راستے پر تم بھاگ رہی تھی اس کے آگے دو راستے ہیں ۔ میں ان راستوں کے بارے میں خوب واقف ہوں۔ ایک جنت نما باغ کی طرف جاتا ہے، جس باغ میں رنگین پھولوں کی صحبت میں رہ کر رنگیلے پرندے سریلی آواز میں ہر وقت گاتے رہتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اس باغ کے خواب دیکھے ہیں کہ میں اور تم اس باغ میں خوبصورتی اور وفا کے ترانے گاتے ہیں۔ مگر وہ خواب خواب ہی رہے۔ دوسرا راستہ ویرانے کو جاتا ہے ، جہاں ایک دیو قامت ظالم چابک لئے ہر وقت کھڑا رہتا ہے۔ وہ معصوم دوشیزاؤں کو اپنا غلام بناتا ہے اور ان پر ظلم کرنا اسکا دیرینہ آئین ہے۔ میں تم سے التجاء کرتا ہوں کہ سیدھے راستے پر چلنا جو باغ کی طرف جاتا ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں، ” آج ہم وہاں مل کر ہی رہیں گے۔ مگر تم میری التجا کو یکسر رد کرتے ہوئے اتراتے ہوئے آگے بڑھتی ہو۔ تم جان بوجھ کر الٹے راستے پر چلتی ہو جو اس ویرانے کو جاتا ہے۔ پھر وہ ظالم اپنے چابک سے تم کو مار مار کر لہولہان کر دیتا ہے۔ میں خون کے آنسو روتا ہوں مگر تم مسکرا کر اسی دیوقامت ، بد صورت اور بد اخلاق ظالم کے آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کرتی ہو۔ وہ تم کو غصے سے اپنی طرف رکوع کرنے کا اشارہ کرتا ہے۔ میرے منہ سے ایک چیخ کے ساتھ نکل جاتا ہے ،” نہیں ،نہیں ”
مگر تم خوشی سے مسکراتے ہوئے اسکے حکم پر رکوع کرتی ہو۔ پھر اس ستمگر کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر اور اپنا سر جھکا کر بیٹھ جاتی ہو۔ میں بہت حیران و پریشان ہوکر سوچتا ہوں، ” تم ایسا کیسے کر سکتی ہو ؟ ایسے ظالم اور جابر شخص کی اور تمہاری اس کشش کا کیا سبب ہے ؟ یہ کیسی حماقت ہے ؟” میرا دل تمہاری اس حماقت پر اندر ہی اندر جلتا ہے۔ مگر پھر جب میں بہت سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ تم اور میں شاید ایک جیسے ہی ہیں، اپنے دل کے ہاتھوں بے بس و لاچار۔ میں تمہاری جن خامیوں کی وجہ سے تیری حماقت پر نکتہ چینی کرتا ہوں جب وہ خامیاں خود میں پاتا ہوں تو اسکو اپنی بے بسی اور لاچاری سے تعبیر کرتا ہوں۔
اِکمال
مہاتما گوتم بدھ کے سب سے قریبی شاگردوں میں ایک شاگرد پورن نام کا تھا۔ ایک دن، مہاتما نے اپنے اس شاگرد کا امتحان لینے کے لیے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا:
“اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم نے کچھ سیکھا ہے تو اب میری تعلیم کو اور لوگوں تک پہنچانے کا کام شروع کرنے کے لیے یہاں سے روانہ ہوجاؤ۔”
“کس سمت میں نکل جاؤں، مہاتما؟” شاگرد نے بے حد ادب سے عرض کیا۔
“اگر تم پختہ ہو تو سمت اور جگہ کا تعین خود کر کے بتا دو۔” مہاتما نے جواب دیا۔
یہ سن کر شاگرد کچھ دیر سوچنے کے بعد دوبارہ باادب ہو کر بولا، “مہاتما، میں نے ایک جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں روانہ ہوجاؤں؟”
“کون سی جگہ کا انتخاب کیا ہے؟”
“میں نے بہار کے سوکھے علاقے کا انتخاب کیا ہے۔”
“کیا تم نہیں جانتے کہ وہ علاقہ کتنا کھٹن ہے اور وہاں کے لوگ کتنے سنگ دل اور برے ہیں؟”
“میں جانتا ہوں، مہاتما۔ اسی لیے تو اس علاقے کو منتخب کیا ہے۔ میری طبیعت کو اس کھٹن علاقے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کو شاید میری ضرورت ہے۔”
یہ سن کر بدھ کچھ دیر خاموش ہو گئے۔ پھر انہوں نے فرمایا:
“اچھا، اگر تم میرے سوالوں کے صحیح جواب دوگے تو میں سمجھوں گا کہ تم واقعی اپنی تربیت کی تکمیل میں کامیاب ہو۔”
شاگرد نے خاموشی سے ہاتھ باندھ کر سر جھکا لیا اور سر ہلایا کہ وہ سوالات سننے کے لیے تیار ہے۔ مہاتما نے سوال کیا:
“اگر تمہاری محنت کے دوران کوئی تمہیں گالی دے تو تم کیا سوچو گے؟”
“میں سوچوں گا کہ شکر ہے انہوں نے مجھے صرف گالی دی ہے، مجھے پیٹا نہیں۔ گالی دینے والا اپنے ذہن، دل اور زبان کو آلودہ کرتا ہے اور اگر سُننے والا ان گالیوں کو اہمیت نہ دے تو اس کا ذہن، دل اور کان اس گندگی سے پاک رہتے ہیں۔”
“اور اگر وہ تمہیں پیٹنے لگے تو تم کیا سوچو گے؟”
“میں سوچوں گا کہ شکر ہے انہوں نے مجھے صرف پیٹا، جان سے نہیں مارا۔ کوئی شخص اگر غصے میں آ کر ہاتھ اٹھائے تو وہ بزدل، بے صبر اور قابل رحم ہوتا ہے۔”
“اور اگر وہ تمہیں مار ڈالنے کا ارادہ کرے تو تم کیا سوچو گے؟”
“مہاتما، میں سوچوں گا کہ شکر ہے میں اپنی جدوجہد میں مارا گیا۔ جو لوگ کسی کے ایمان، خیال یا تعلیم کی وجہ سے کسی کو قتل کرتے ہیں، ان کے ساتھ رہنا مرنے سے بدتر ہے۔”
یہ سن کر بدھ کے چہرے پر مسرت بھری چمک ظاہر ہوئی اور انہوں نے فرمایا:
“تم واقعی اپنی تعلیم میں مکمل ہو چکے ہو۔ اب گالی، مار یا موت تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اب جاؤ، اور دوسروں کو بھلائی سکھاؤ۔”
���