فلک ریاض
نظر
شکیل کی آنکھیں کمزور پڑ گئی تھی۔ اب وہ چہروں کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔کوئی جب بہت نزدیک آتا تب ہی اس کو پہچان پاتا تھا۔ اب وہ جب بھی بازار سے چلتا تو سر کو جھکائے احتیاط کے ساتھ چلتا۔ کئی سالوں سے اس کی نظر اب کمزور تھی۔ گھر والوں کے اصرار اور زور زبر دستی کی وجہ سے اس کو آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔ لاپرواہی کی وجہ سے مائنس چار ہو گیا تھا ۔۔عینک دیا گیا اور اب اسے بہت صاف دکھائی دے رہا تھا۔ مگر پھر وہی عادت جس کا وہ شکار تھا ۔۔۔اب وہ پھر سے راہ چلتی لڑکیوں اور عورتوں کو تکنے لگا ۔ تن کی ہوس کو آنکھوں کے ذریعے پورا کرنے لگا۔ اب اس کو ہر عورت کا چہرہ صاف نظر آرہا تھا۔لیکن ایک شام عبادت کے دوران اس نے اپنا عینک اٹھا کے توڑ دیا اور خود سے بولنے لگا “میں بنا عینک کے ہی ٹھیک ہوں ۔۔میں نے اپنے نفس پہ قابو سیکھ لیا تھا ۔۔مجھ جیسے لوگوں کو عینک کی ضرورت نہیں ۔۔۔کہہ کر وہ پھر سے عبادت میں مشغول ہوا۔
شک
بشیر نے صبح صبح دکان کھولی تو شٹر سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نیچے گر گیا۔اس نے جلدی سے اٹھایا کھولا تو ایک تعویذ جیسی کوئی چیز تھی ۔وہ آپے سے باہر ہوااور سرعت کے ساتھ سبھی پڑوسی دکانداروں کو دکھانے لگا کہ دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ کوئی مجھ پہ جادو ٹونا کر رہا ہے ۔۔اسی لیے میرے خریدار خرید و فروخت کے بغیر میری دکان سے چلے جاتے تھے ۔۔اس نے سیلز مین کو دکان سنبھالنے کے لیے کہا اور خود بائیک سٹارٹ کر کے کسی پیر صاحب کے پاس چلا گیا ۔۔دوپہر کو وہ واپس آیا تو سبھی دکاندار اس کے پاس آئے اور حال پوچھاتو بشیر خوف زدہ چہرہ لیے تذبذب کی حالت میں گویا ہوا “ارے یار تم لوگوں کو پتہ ہے پیر صاحب کیا بولا ۔۔۔وہ بولا کہ یہ انتہائی خطرناک تعویز ہے ۔۔بس دو دن میں اس کے اثر سے میری جان جا سکتی تھی ۔۔۔۔پیر صاحب یہ بھی بولے کہ یہ کسی اپنے کا کام ہے ۔۔۔یہ کالا جادو ہے۔ وہ آپے سے باہر ہو کے بہت کچھ بول رہا تھا۔ تو دوسری طرف اس کے دو مزاقیہ پڑوسی دکاندار اشفاق اور شمیم ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کیونکہ انہوں نے ہی بشیر کو شکی مزاج پا کر ایک کاغذ پہ ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچی تھیں ۔اور اس کی دکان میں رکھ دیا تھا۔ بشیر بولے جا رہا تھا ارے یار میری جان بہت ہی خطرے میں تھی ‘۔ ۔اب پیر صاحب نے پندرہ سو روپیہ لئے اور بولے کہ وہ آج رات ایک مخصوص عمل سے اس کالے جادو کو ناکام کر کے ہی رہیں گے۔
حسینی کالونی چھترگام کشمیر ،موبائل نمبر؛6005513109