اَثر
ریٹائرمنٹ کے سات سال بعد بھی وہ اپنی مقامی مسجد کا کبھی رخ نہیں کرتا تھا۔ پانچ بار کی ازان اس کی سماعتوں سے ٹکرانے کے باوجود بھی بے اثر گزرتی تھی۔ دن بھر لوگوں سے گپ شپ مارنا اور دکانوں کے تھڑوں پر بیشتر وقت ضائع کرنا گویا اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا خاص مشغلہ بنایا ہوا تھا۔ جس دن بین الاقوامی کرکٹ میچ چلتا تھا اس دن وہ خود کو زیادہ ہی مشغول رکھتا تھا، خاص کر ہندوپاک کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنا وہ کبھی مس نہیں کرتا تھا۔ کرکٹ کمنٹری کا وہ بچپن کے دنوں سے ہی بڑا شوقین تھا۔ بیوی اور بچوں کے اصرار پر بھی وہ کبھی نماز پڑھنے نہیں جاتا تھا۔ فلمیں دیکھنا، ٹیلیویژن پر دنیا بھر کی سیاسی خبریں سننا وغیرہ اس کی خطرناک عادت بن چکی تھی۔ صبح بھی وہ دیر نیند سے جاگتا تھا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بھی وہ اپنا بیشتر وقت ٹیلیویژن کے سامنے رہتے ہوئے گزارتا تھا۔ اس عادت سے اس کی بیوی اور بچے کافی تنگ آچکے تھے۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا۔
ایک دن اس کے بڑے بیٹے کا دوست، جو اس کے ساتھ دہلی کی جامعیہ ملیہ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور دونوں کا ہوسٹل بھی ایک ہی تھا، ان کے پاس آیا اور تین دن تک اس نے وہاں ہی قیام کیا۔ بیٹا ان دنوں ملیشیا گیا ہوا تھا کیونکہ وہاں اسے کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو میں شامل ہونا تھا، اسلئے مہمان کی خاطر داری باپ کو ہی نبھانی پڑی۔ مہمان صوم و صلات کا مکمل پابند ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کردار اور اوصاف کا مالک تھا۔ باپ نے مہمان نوازی بہت اچھے سے کی۔ اس کو اردگرد کے نظارے دکھائے اور اس کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے دو تین دوستوں سے بھی ملوایا۔ مغرب کی ازان ہوئی، مہمان نے نزدیکی مسجد کے بارے میں دریافت کیا تاکہ وقت پر باجماعت نماز ادا کر پائے۔ باپ نے رہنمائی کرتے ہوئے خود بھی وضو بنایا اور مسجد میں داخل ہوا۔ گھر پہنچتے ہوئے عشاء کی ازان ان کے سماعتوں سے ٹکرائی۔ مہمان نے نماز مسجد میں ادا کرنا چاہی، باپ اس کے ساتھ نکلا اور نماز عشاء بھی قائم کی۔ دوسرے روز جب مسجد سے صبح یعنی فجر کی ازان دی گئی تو مہمان نیند سے جاگا اور وضو بنانے کے بعد کچھ رکعتیں وہاں ہی ادا کرنے لگا۔ دوست کا باپ بھی جاگ اٹھا اور وضو بناکر دونوں مسجد کی طرف فجر کی فرض رکعتیں ادا کرنے کی خاطر چل دئیے۔ مسجد سے واپس آنے کے بعد جب دونوں کو چائے سامنے رکھی گئی تو دوست کی ماں نے کہا۔۔۔۔ بیٹا آپ کی عادات بہت ہی خوبصورت ہیں اور کم عمری میں ہی آپ نے نمازوں کی پابندی شروع کر دی ہے اللہ آپ کو صحت کاملہ اور عمر دراز عطا کرے۔۔۔۔
مہمان۔۔۔۔ ماں ! میں کم عمر کہاں ہوں ۔ اسلم بھائی اور میں ، ہم دونوں زندگی کے تیس بہاریں دیکھ چکے ہیں جب ہم دونوں دہلی میں زیر تعلیم تھے تب ہماری عمر پچیس سال تھی۔ آدمی تیس سال کا ہو چکا ہو اور نماز و روزوں کی پابندی نا کرتا ہو یہ ایک مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ آخر کس عمر میں پھر وہ صوم و صلات کا پابند بن جائے گا۔ زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کب یہاں سے رخصت ہونا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے جتنا جلدی ممکن ہوسکے نمازوں و روزوں کے علاوہ دوسری عبادتوں کی مکمل پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق سے دوسروں کو متاثر کرنا چاہیے۔ وہی زندہ رہنے کا مقصد و مدعا ہے۔
تین روز بعد جب مہمان واپس دہلی کی طرف نکلا تو اگلے روز سے ہی دوست کے باپ نے نمازوں کی مکمل پابندی کی ، کبھی کبھی ازانیں بھی دینے لگا اور تین مہینے بعد ہی اسے مسجد کمیٹی نے خزانچی مقرر کیا۔
فریب
گرین پارٹی کے ایجنٹ نے ووٹنگ کے دن پوش پارٹی کے ایجنٹ کے ساتھ دن بھر تکرار اور جھگڑا کیا۔ پوش پارٹی کے جو بھی ووٹران ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن کا رخ کرتے تھے گرین پارٹی کا ایجنٹ انہیں اپنی طرف راغب کرتا تھا اور گرین پارٹی کے حق میں ہی ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتا تھا۔ پوش پارٹی کا ایجنٹ شریف النفس، بااخلاق اور سیدھا سادہ تھا اور وہ لڑائی کے بجائے صبر و تحمل سے ہی کام لیتا تھا۔ مذکورہ پولنگ اسٹیشن پر بیشتر ووٹران نے گرین پارٹی کے حق میں ہی اپنی حق رائے دہی کا استعمال کیا کیونکہ پارٹی کا ایجنٹ انہیں مجبور بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی دباؤ بھی ڈالتا تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ اس کا الیکشن میں حصہ لینے والا امیدوار ضرور فاتح ہوگا۔
دوسرے ہفتے الیکشن کے نتائج سامنے آئے۔ گرین پارٹی کے امیدوار نہیں بلکہ پوش پارٹی کا امیدوار اس اسمبلی حلقے میں اپنی جیت درج کرنے میں کامیاب ہوا۔ پوش پارٹی کا ایجنٹ خوشی سے پھولے نہیں سمایا اور اس کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہا۔ اگلے روز صبح سویرے اس نے اپنے فاتح امیدوار کو مبارک باد دینے کا پروگرام بنایا اور گاڑی کرایہ پر لی۔ جب وہ کامیاب امیدوار کے گھر پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ گرین پارٹی کا ایجنٹ اور اس کے کئی کارکن شامیانے میں چائے پینے میں مگن تھے اور انہوں نے کامیاب امیدوار کو مالائیں چڑھائی ہیں۔
پوش پارٹی کا ایجنٹ یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ گرین پارٹی والوں نے کامیاب امیدوار کو فریب دیا یا اسے۔۔۔۔ ؟؟؟