ش۔شکیل
مردِمومن
ایک آدمی دوسرے آدمی سے یوں کہہ رہا تھا۔ ’’یاراُس کی بیوی کی اُس کے قریب کے دور کے تمام رشتے دار وں میںکوئی قدر و منزلت نہیں ہےجب بھی ذکر نکلتا ہے تو ہر کوئی کہتا ہے وہ عورت جانے دے اُس کا نام مت لو ۔۔۔میں تو یہاں تک سُنا ہوں کہ وہ اپنے شوہر کو ایسے کہتی ہے۔۔۔تم کیسے مرد ہو گھر سے ڈیوٹی‘ڈیوٹی سے گھر۔۔۔گھر کی ضرورت کی چیزیں لاتے ہو۔۔۔پھر بچوں کو پڑھاتے ہو سمجھتاتے ہواس کے بعد پھر اخبار اور کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتے ہو۔۔۔دوسری عورتوں کے مرد دیکھو کیا کیا کرتے پھرتے ہیں۔۔تم ہوکر گھرکی چاردیواری میں عورتوں کی طرح بیٹھے رہتے ہو۔۔۔اتنا سُن کر بھی وہ اپنی بیوی کو کچھ نہیں کہتا ہے۔ ایسے سُنا ہے۔ ۔۔۔کیا یہ صحیح ہے‘ وہ ایسا کیوں کر رہاہے۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔’’ہاں سُنا ہے ا ور‘یہ صحیح بھی ہے۔ وہ اس لیے ایسا کر رہا کیونکہ وہ حضورؐ کے کہے پر عمل کر رہا ہے۔ اس لیے وہ صحیح معنوں میں مرد یا یوں کہہ لو کہ۔۔۔مرد مومن ہے۔ اور ہم مرد ہیں صرف مرد۔
ٹیڑا سیدھا
ایک طالب علم دوسرے طالب علم سے کہہ رہا تھا۔’’یہ جو نئے ٹیچر آئے ہیں ‘کیا وہ ہمیں اچھی طرح پڑھا لکھا سیکھا سکینگے ؟‘‘ دوسرے طالب علم نے کہا۔’’کیوں ؟ تیرے دل و دماغ میں کیونکریہ سوال پیدا ہوا؟‘‘پہلے والے نے کہا۔’’وہ دیکھ تختۂ سیا ہ پر ٹیچر کی تحریر اوپر سے نیچے کی طرف ٹیڑھی آئی ہے۔۔۔اور تو اور مشق کو اُنہوں نے مش لکھا ہے نقل کو عقل لکھا ہے۔‘‘دوسرے نے کہا کچھ ٹیچر جان بوجھ کر اوپر سے نیچے کی طرف ٹیڑھا لکھتے ہیں، ساتھ ہی ایک دو الفاظ غلط سلط لکھ دیتے ہیں۔تا کہ تمام طالب علموں کی توجہ اُن کی طرف رہے اور جو کچھ وہ پڑھانا سیکھانا اور سمجھانا چاہتے ہیں وہ بچو ں کو سمجھا سکیں۔ ۔۔ٹیچرتجھے شاید ٹیڑھا لگ رہا ہے نا !اب دیکھ ٹیچر کیسے سیدھے ہو تے ہیں۔‘‘کہتا ہوا وہ ٹیچر کو مخاطب کرتے ہوئے ہاتھ اُٹھا کھڑے ہوکر کہا۔’’سر آپ کی غلطی کی طرف توجہ دلانے کی گستاخی کر رہا ہومعافی چاہتا ہوں ۔۔۔‘‘ ٹیچر طالب علم کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ہاں میں جانتا ہوں ۔۔۔میری کیا غلطی ہے۔۔۔میری تحریر تیڑھی ہے ۔۔دوالفاظ غلط لکھے ہیں۔۔۔میں نے جان بجھ کر یہ غلطیاں کی ہیں تا کہ ہر طالب علم کی توجہ میری جانب رہے اور میری دلی خواہش ہے کہ ہر طالب علم کو وہ سب کچھ سمجھ میں آئے جو میں طلباء کو سمجھنا اور سیکھانا چاہتا ہوں ۔‘‘اتنا کہہ کر ٹیچر غلطیاں سُدھار نے میں لگ گیا۔ادھر پہلے والا طالب علم دوسرے سے کہہ رہا تھا۔’’واقعی ٹیچرلا جواب ہے ‘ٹیڑھے انداز میں سیدھے سیدھے پڑھاتا اور سمجھاتا ہے۔‘‘
ہدایت
ایک لڑکا اپنی ماں کو مُکے سے ران پر تو کبھی پیٹھ پر مار رہا تھا، اتنا ہی نہیںکبھی کبھار وہ اپنے پیر سے ماں کے پیر کو مار رہا تھا۔ماں کی برداشت اور صبر کی حدتجاوز کر گئی تو جھلا کر غصّے سے کہی۔’’ایسی کیا شیطانی حر کتیں کر رہا؟ اب دیکھ ساتھ والا تیرا بھائی ہے تیرے سے چھوٹا ہے کیسے ادب سے بیٹھا ہے۔۔۔تو اور تیرا بھائی عربی پڑھنے مسجد جاتے ہیں ہے نا!۔۔۔وہاں کے عربی پڑھانے والے اُستاداپنے سے بڑوں اور بزرگوں کی عزت کرو اپنے ماں باپ کی عزت کیا کروماں کے قدموں میں جنت ہے۔۔۔ایسے بتاتے اور پڑھاتے نہیں ہیںکیا؟‘‘ اس پر لڑکا شرمندگی کی مسکراہٹ پر بے شرمی کا ملّمعّ چڑھا کر کہا۔’’ بتاتے ہیںنا!لیکن میں اچھائی کو بُرائی کا اچار لگا کر ہضم کر رہا ہوں۔۔۔ تا کہ مرنے کی بعد کی زندگی میں کام آئے۔اللہ کہتا ہے میں کسی کی خوبصورتی یا حسب نسب کو نہیں دیکھتا میں تو نیتو ں کو دیکھتا ہوں۔۔۔کیونکہ اعمال کر دارومدار نیتوں پر منحصر ہے۔۔۔اب فیصلہ تو اللہ کرے گا قیامت میں میری نیت صحیح ہے یا پھرتمہار ے راج دُلارے کی۔ میری نیت کا علم مجھے اور اللہ کو ہے اسی طرح آپ کی اور آپ کی چھوٹے بیٹے دونوں کی نیت آپ لوگوں کو معلوم ہے یا پھر اللہ تعالیٰ کو۔ ماں دونوں بیٹوں کو حیرت سے باری باری دیکھتی ہو ئی سوچ رہی تھی ہدایت کس کو مل رہی ہے ؟بڑا بیٹا مسکرا رہا تھا اور چھوٹا بیٹا اپنی جگہ کچھ سوچ رہا تھا۔
اورنگ وآباد(مہاراشڑ)موبائل نمبر؛9529077971