قابل نا قابل
ایک طالب علم وقت غنیمت جان کر ٹیچر اسٹاف روم میں داخل ہوا۔ایک ہی ٹیچر اسٹاف روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ طالب علم نے ٹیچر سے سوال کیا۔’’سر اُس لڑکے کو
میرے گال پر تھپڑ مارنے کے لئے کیوں کہا؟اگر آپ ماردیتے تو بُرا نہیں لگتا جتنا اُس لڑکے سے مار کھائے جانے سے لگ رہا ہے۔‘‘ٹیچر نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’تم جیسے لڑکوں کو ایسے ہی ذلیل کرنا چاہیئے‘ تم اسی کے قابل ہو۔‘‘ طالب علم ایک نظر ٹیچر پر ڈال کر بولا۔’’جی سر آپ نے بالکل صحیح کہا۔جو باپ اپنے بیٹے کو بُری عاتوں سے رُکنے کے لئے تھپڑ نہیں مار سکتا وہ اسی طرح دوسروں کے بیٹوں کے ذریعے دوسروں کے بیٹوں کو تھپڑ مارنے کا حکم دیتا ہے۔کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ کسی بزرگ آدمی کو اپنے جوئے باز‘شرابی اور تمباکو خور بیٹے کو کسی بزرگ آدمی سے اپنے بیٹے کو مارنے کے لئے کہہ سکے۔معاف کرناسر۔۔۔آپ کو اپنے بری عادتوں میں ملوث بیٹے کی یاد دلا دی ۔‘‘کہتا ہوا طالب علم اسٹاف روم سے نکل گیا۔
خود کی خودسے ملاقات
وہ کروڑ پتی والدین کا بیٹا تھا۔ہر سال اپنی سال گرہ پر اپنے انگنت دوستوں اور رشتے داروںکو مدعو کیا کرتا تھا۔ ایک اچھے خاصے ہوٹل میں پارٹی دیا کرتا تھا۔لیکن آج اُس نے اپنی سال گرہ پر کسی کو نہیں بُلایا۔کئی رشتے دار‘دوست احباب، جن کو اُس کی سال گرہ یاد تھی، نے فون پر پارٹی کے متعلق پوچھا۔اُس نے کہا کوئی پارٹی نہیں۔ کیونکہ میں شہر میں نہیں ہوں۔وہ اپنے آپ کو کمرے میںقید کر لیا۔فون پر کیک کا آڈر دے کر منگوایا۔رات ہوجانے پر خود سے خوب سج دھج کر ٹیبل پر کیک سجا کر رکھ دیا ۔اُس کے بعد ایک قد آدم آئینہ رکھ دیا۔چاقو سے کیک کاٹتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔’’یہی برتھ ڈے موہن۔‘‘یہ جملہ تین دفعہ دہرایا۔ کیک کا ایک ٹکڑا لے کر پہلے اپنے آئینے میں نظر آنے والے عکس کے منہ کی طرف لے گیا۔پھر خود ہی کھاتا ہوا خود سے کہنے لگا۔’’ بہت بہت شکریہ موہن۔ تونے آج حقیقی موہن کو ملادیا۔ میں موہن ہوں تو موہن کے ماں باپ ہیں‘موہن کے دوست احباب رشتے دار ہیں۔ساتھ ہی معاشرہ ہے ‘سماج ہے اور ساری دُنیا ہے۔ اگر موہن نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘مسکراتے ہوئے تالی بجاتے ہوئے کہنے لگا۔’’ پھر ایک دفعہ یہی برتھ ڈے موہن ‘میں تیرا بے حد مشکور ہوں کہ موہن کے برتھ ڈے پر موہن آگیا۔‘‘
اورنگ آباد(مہاراشٹر),موبائل نمبر؛9529077971