بلال بخاری
تعلیم
ایک شخص نے ایک طوطا خریدا جس کے بارے میں اس نے سنا تھا کہ یہ پرندہ تیزی سے بولنے کا ہنر سیکھ جاتا ہے۔
گھر پر لاکر وہ اسکو کچھ مخصوص کلمے سکھانے لگا تاکہ وہ اس کا وفا دار جانور بن جائے۔
وہ ہر صبح اسے کچھ الفاظ کی تعلیم دینے لگا۔
وہ اسے سکھاتا رہا۔
“مالک کو دیکھتے ہی اپنا سر جھکا کے سلام کرو ”
وہ طوطا جلد ہی یہ ورد سیکھنے میں کامیاب ہوا۔
وہ دہراتا رہتا۔
” مالک کو دیکھتے ہی اپنا سر جھکا کے سلام کرو۔”
کچھ عرصہ بعد اس آدمی نے کہا،
“ہاں اب یاد ہوگیا ہے تمکو، اب اس پر عمل کرو۔ مجھے سلام کرکے دکھاو”
طوطہ یہ نیا حکم سمجھ نہیں پایا اور مالک کو حیرت سے گھورتا رہا۔
مالک کو غصہ آیا اس نے چلا کر کہا،
“اب مجھے سر جھکا کر سلام کرو۔”
طوطے نے چونکہ یہ جملہ پہلے ہی سیکھا تھا اس نے اسی کو دہرایا،
“اب مجھے سر جھکا کر سلام کرو۔”
مالک طوطے کی یہ حرکت دیکھ کر بہت غصے میں آیا۔ اسے لگا کہ یہ جان بوجھ کر میری نقل اتار رہا ہے۔ اسے یہ سمجھ نہ آیا کہ کسی کلمے کے ورد کرانے سے کسی کو علم اور آدابِ زندگی سے آگاہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس نے اشتعال میں آکر اس معصوم پرندوں کو ہاتھوں میں لیا اور اس کے پر نوچنے لگا۔
وہ بے قصور جانور اپنی جان بچانے کے لیے چیخنے لگا۔
اس کی دردناک پکار سن کر اس آدمی کا ایک ہمسایہ دوڑتے ہوئے آیا اور طوطے کو اس ظالم انسان کے مضبوط ہاتھوں سے چھڑا کر مسئلہ دریافت کرنے لگا۔
طوطے کے مالک نے غصے سے کہا،
“تم اس طوطے کو نہ بچاؤ۔ یہ کسی کام کا نہیں۔ میں اسے علم سکھاتا ہوں لیکن یہ صرف میری نقل اتارتا ہے، علم نہیں سیکھتا۔”
یہ سن کر اس کے ہمسائے نے مسکرا کر کہا،
” اگر آپ اسکو رٹا لگاکر علم سیکھنے پر مجبور کر رہے ہو تو یہ صرف نقل اتارنا اور الفاظ کا بے اثر ورد ہی سیکھ پائے گا۔ اگر آپ نے اس معصوم کو اپنے کلمے یاد کراکے صرف ورد کرانے پر زور دیا تو یہ ایک اچھا تماشا تو بن سکتا ہے لیکن ایک وفادار جانور نہیں۔
تعلیم ورد زبانی کا نام نہیں ہے۔ علم کو آپ اپنے عمل کے ذریعے سکھاتے ہیں۔ جو علم عمل کے ذریعے سکھایا جاتا ہے اسی پر آپ یہ امید رکھ سکتے ہو کہ اس پر سیکھنے والا عمل پیرا بھی ہو۔”
یہ سن کر جب اس شخص نے اپنے طوطے کی طرف نظر ڈالی تو اس کو اس معصوم جانور کی مظلوم صورت دیکھ کر اس پر اور اپنی سوچ پر بہت ترس آیا۔
کورا کاغذ
صبح کسی نے مجھے ایک کورا کاغذ بھیجا۔ اس کے ساتھ ایک مختصر سا کھلا خط تھا۔ اس پر لکھا تھا،
” پیارے بخاری صاحب اس کورے کاغذ پر کچھ ایسا تحریر کریں کہ مجھے اطمینان حاصل ہو۔
آپکا ایک مخلص دوست۔”
میں حیران ہوا۔ مجھے یہ کورا کاغذ بہت دلکش نظر آیا۔ سوچا اس پر کچھ خاص تحریر کرتا ہوں۔ اس لئے میں نے اپنے جیب سے قلم نکال کر اس کورے کاغذ پر رکھا اور سوچنے لگا،
” اس کورے کاغذ پر کون سے خوبصورت الفاظ تحریر کروں ؟”
پھر خیال آیا کہ ایک کورا کاغذ اور ننھے بچے کا ذہن کس قدر یکساں ہوتے ہیں۔
کورے کاغذ پر آپ قرآن کی آیات لکھیے تو لوگ اسے قرآن کہیں گے۔ آپ اس پر بائبل چھاپ دیں گے تو لوگ اسے بائیبل سمجھیں گے۔ اس پر گیتا کے شلوک چھاپ دیجیے تو لوگ اس سے گیان لیں گے۔
کورے کاغذ پر کسی کی موت کا فرمان ثبت کریں تو یہ قہر بن جائے گا۔ اس پر محبت، رحم اور شفقت کے الفاظ تحریر کریں تو یہ ایک بے مثال نعمت بن کر دلوں کو مسرت سے لبریز کردے گا۔
” کیا تحریر کروں ؟” کچھ سمجھ نہ آیا۔
میں نے اس شفاف کاغذ پر سے اپنا قلم ہٹایا اور آنکھیں بند کرکے سوچتا رہا،
” کیا تحریر کروں اس تحفے پر ؟”
ہردوشورہ کنزر