نور شاہ
حاضر غیر حاضر
ہیلو۔۔۔۔ ہاں ہاں میں عارف بول رہا ہوں۔۔۔ انکل آپ۔۔۔۔ سب خیریت سے ہیں نا۔ آپ اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں ہیں۔۔۔ کیا ہوا؟ غفور صاحب انتقال کر گئے۔
My God۔۔۔شرافت کے پیکر تھے اور بہت ہی نیک ہمسایہ بھی۔۔۔ اچھا! نمازِ جنازہ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔۔۔ جی ہاں مجھے اپنی شرکت کا بھر پور احساس ہے، میں اپنی ہمسائیگی کے فرائض سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ پر کیا کروں۔۔۔ اس وقت دفتر سے باہر جانا ممکن نہیں۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ صبح دس بجے سے پہلے پہلے ہی دفتر میں لگی مشین کا بٹن دبانا پڑتا ہے اور اس طرح ہمارے دفتر آنے کی حاضری لگ جاتی ہے اور پھر پانچ بجے دفتر سے باہر جانے پر ایک بار پھر بٹن دبانا پڑتا ہے۔ ہماری نوکری تو ان ہی بٹنوں کے درمیان لٹکی ہوئی ہے اور ہاں اِن بٹنوں کا کنٹرول کہیں اور ہے۔۔۔ انکل آپ خاموش کیوں ہوگئے، آپ نے فون ڈسکنکٹ کیوں کیا۔۔۔ انکل۔۔۔ انکل۔۔۔ ؟!
بدلے موسم کے رنگ
شادی کے بعد اُن کی زندگی کے دو سال بے خبری کے عالم میں گزر گئے اور اس بے خبری کے عالم میں اُن کے دل کے آنگن کو ان گنت مسرتوں نے اس قدر گھیر رکھا کہ موسم بدلنے کے انداز ہی فراموش کر بیٹھے اور جب انہیں موسم کے بدلنے کا احساس ہوا تو ذہنوں میں پوشیدہ خاموشی بھی ایک سوال بن کر اُن کے سپنوں کو چھونے لگی اور پھر یہ سوال آہستہ آہستہ اُن کے وارث کے روپ میں بدلتا گیا۔ ان کی اتنی بڑی وراثت اتنی بڑی جائیداد، زمیں زراعت اور وراثت۔
اس دوران اپنے وارث کی تلاش میں دو سال کی مدت چار سال میں بدل گئی۔ چار سال کے طویل عرصے کے بعد یہ احساس اب حقیقت بن کر اُن کو بے قراری کے ساتھ ساتھ بے بسی کے لمحات سے بھی آشنا کرنے لگا۔ کانوں میں شرین قہقہے سنائی دینے لگے۔ نظروں کے سامنے بھی ننھی مُنی چھوٹی چھوٹی اور معصوم معصوم سی رنگ برنگی تصویریں میں دکھائی دینے لگیں ۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی جب اَن دیکھی وانجانی مسرتوں نے دل کے دروازے پر کوئی دستک نہ دی تو انہوں نے پیروں فقیروں کی تلاش شروع کر دی۔ تعویذوں کا سہارا لیا۔ سمندر پھر بھی پیاسا ہی رہا اور پیاس لمحہ لمحہ بڑھتی گئی۔ پھر اپنا علاج و معالجہ شروع کیا۔ اپنے اوپر مختلف نسخے آزمائے اور جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی تو رضامندی کے بعد ایک نئی راہ اپنالی۔ اپنی بھر پور وراشت کو دو حصوں میں بانٹ لیا اور ایک دوسرے کی رضامندی کے ساتھ طلاق لے کر یا طلاق دے کر راہیں جدا کرلیں۔ عادل اور نازیہ کی خوش رنگ زندگی کو وارث کی گمشدگی نے بے رنگ بنا دیا۔
وقت کا پہیہ نہ رُکا ہے اور نہ رُکے گا۔
دونوں نے الگ الگ اپنے اپنے گھر بسالئے !
عادل نے صفیہ سے شادی کرلی ؟ عادل کو گھر ملا، وراثت ملی اور بیوی بھی !! نازیہ نے جمال کو اپنا لیا !! نازیہ کو جمال ملا اور وراثت بھی !! اور اس طرح عادل اور نازیہ کا رشتہ ٹوٹے آئینے کی لکیر میں سمٹ کر رہ گیا ! زندگی آگے بڑھتی رہی۔ دوسری شادی کے بعد بھی زمین بنجر ہی رہی۔ بنجر زمین کا کرب قائم و دائم رہا اور وقت ایک بار پھر بے خبری کے عالم میں سرکتا رہا ، سکتا رہا۔
اور اچانک ایک شام بہت مدت بعد کسی جانی پہچانی شادی کے تقریب میں عادل اور نازیہ کی ملاقات ہوئی۔ دونوں کا بہت قریب سے گذر ہوا۔ دونوں رُک گئے ، ایک دوسرے کی جانب دیکھا جانے کن نظروں سے، کن سوچوں سے اور کن خاموشیوں سے۔ شاید ان کے دل کی پیاس اور اُن کی سوچوں کی چاہت کو اب بھی وارث کی تلاش تھی اپنی اپنی وراثت کے لئے !! !!لیکن موسم اب بن بر سے ہی اپنے سارے انداز بدل کر تھک چکا تھا…!!
گوری پورہ لنک روڑ راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛99066771363