ہلال بخاری
تنقید
ایک فنکار اپنے عظیم استاد سے بہترین پینٹنگ بنانے کا ہنر سیکھ رہا تھا۔ استاد کی مصوری کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس کی تصویریں اکثر جیتی جاگتی شکلیں نظر آتی تھیں۔ ایک دن جب اس کے شاگرد کو لگا کہ اس نے ایک قابل ستائش پینٹنگ بنائی ہے تو استاد کی اجازت کے بغیر اس نے اس پینٹنگ کو ایک نمائش میں پیش کیا تاکہ لوگوں سے داد حاصل کرسکے۔ اس کو یقین تھا کہ لوگ اسکی پینٹنگ کو پسند کرکے اس پر مثبت تاثرات پیش کریں گے اور یہ جان کر اسکا استاد بھی بہت خوش ہوگا۔
لیکن لوگوں نے اس پینٹنگ پر مثبت کے بجائے منفی تاثرات پیش کئے۔ کسی نے لکھا کہ اس پینٹنگ کا معنی ہر لحاظ سے بے تکا ہے، تو کسی نے کہا اس کے رنگ ہی پھیکے ہیں۔کسی نے کہا مصور رنگوں کے برمحل استعمال سے بے خبر ہے تو کسی نے شکایت کی کہ یہ تصویر صرف بے بسی اور لاچاری کی منظر کشی کرتی ہے۔
اگلے دن جب استاد نے اپنے شاگرد کو دیکھا تو وہ اداس بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے شفقت سے پوچھا،
،” کیا بات ہے ، اتنے اداس کیوں ہو ؟ ”
شاگرد نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ،
,” میں نے آپکی اجازت کے بغیر ایک پینٹنگ بنا کر نمائش میں پیش کی تھی لیکن لوگوں نے اس پر صرف تنقید کی۔ کسی نے بھی کوئی مثبت تاثر پیش نہیں کیا”
یہ سن کر استاد نے مسکرا کر کہا ،
” اکثر لوگ یہاں تنقید برائے تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ اصل تنقید وہ ہے جو برائے تعمیر ہو۔ تنقید کا مقصد تخریب سے پاک ہو اور تعمیری ہو تو یہ ایک نعمت ہے۔”
شاگرد خاموشی سے سنتا رہا۔ پھر استاد نے ماہرانہ انداز میں مشورہ دیتے ہوئے اسے پھر سے اسی پینٹنگ کو نمائش میں پیش کرنے کی صلاح دی۔
لیکن اس بار اس نے اس پینٹنگ کے حاشیے پر تحریر کیا،
” اگر کسی کو اس پینٹنگ میں کوئی نقص نظر آئے تو براہ کرم وہ اس کی تلافی کے لئے اپنے قیمتی آراء سے ہمیں آگاہ کرے۔”
اس بار ہر کسی نے اس پینٹنگ کی تعریف عمدہ سے عمدہ الفاظ میں کی۔کسی نے لکھا کہ مصور نے رنگوں کا بر محل استعمال کیا ہے، کسی نے کہا اس سے بہتر مقصدیت کی پینٹنگ ہو ہی نہیں سکتی تو کسی نے فرمایا کہ اس تصویر کے رنگ کمال کے دلفریب اور دلکش ہیں۔
سبق
ایک نیک صفت انسان نے ایک کتے کو پانی کے بہاؤ میں بے بسی سے بہتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اسے بچا لیا۔ یہ کتا وفا دار نکلا۔ ہر وقت اس انسان کے پیچھے ایک وفادار جانور کی طرح پھرتا رہتا۔
ایک دن اس انسان نے ایک سانپ کو ایک بھاری پتھر کے نیچے لاچاری میں دبا ہوا پایا۔ اس نے سوچا جانور وفادار ہوتے ہیں۔ اس نے اس سانپ کی بھی مدد کی۔ مگر جونہی وہ سانپ آزاد ہوا اس نے اس انسان کو کاٹ لیا۔وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ کتے نے اس کی مدد کی اور کہیں سے حکیم کو لایا جس نے اس انسان کا علاج کیا۔
اس آدمی کو سبق ملا کہ ہر کسی کی مدد کرنا بہتر ہے مگر ہر ایک کی فطرت کو پہچان لینا بہترین ہے۔
ہردوشورہ کنزر ،ٹنگمرگ
[email protected]