رتن سنگھ کنول پہلگامی
اپنی اپنی سوچ
” اب تو اس کے آخری رسومات تک میں ہی پستا رہوں گا ۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑ گئیں۔صبح نکلو شام کو گھر لوٹ آو۔بیوی کے سر پر بھی کم بھوج نہیں ہے۔کھلانا پلانا،دھونا سنوارنا، اور بھی کتناکچھ! یہ کمرے میں بیٹھی بس حکم سنائے گی ،یہ مت کرو ،وہ کرو ،جلدی اٹھو ،دیر تک مت سوئے رہو ۔۔۔اب دو دن سے کھانس رہی ہے ،تھوک بھی باہر نہیں پھینکتی۔۔۔ اچھا ہو اگر ۔۔۔ اور بھی تو دو بیٹے ہیں،یہ مست ہیں ،عیش کی زندگی گزارتے ہیں ۔۔۔ ” چھوٹا بیٹا ساتھ والے کمرے میں کپڑے بدلتے ہوئے سوچ رہاتھا ۔ نا چاہتے ہوئے بھی ماں کی کوٹھڑی میں ٰداخل ہوا ۔ماں اکڑوں بیٹھی سوچ رہی تھی۔ بیٹے نے بنا روشن دان کے چھوٹی سی کھڑکی کھولتے ہوئے پوچھا۔ ” بیٹے! تیرے بھائیوں کے مُقابلِے میں تیرا کچھ بھی نہیں سنورا۔اگر مر گئی تو بہت افسوس رہے گا۔۔۔!”
چائے
وہ تھکا ماندہ دفتر سے گھر لوٹا ۔کپڑے بدلنے سے پہلے بیوی سے چائے کا ایک کپ مانگا ۔بیوی اپنےبیڈ روم میں سونے کی کوشش کر رہی تھی ۔وہ چائے بنانا نہیں چاہتی تھی ۔خاوند نے بار بار چائے بنانے کو کہا لیکن بیوی پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اُسےاچانک یاد آیا اور خاوند سے کہا ، ” ابھی کپڑے مت بدلو ، سرلا کے خاوند کو گھر لے آتے ہیں ، دو مہینے اسپتال ایڈمٹ رہا ۔بہت پیسہ بہہ گیا انکا ۔جا کر اُن کی خبر لو اور چائے بھی پیو ۔ہمارے یہاں آج نمکین بھی ختم ہو گیا ہے ۔
موبائل نمبر؛9858433957