عذرا حکاک
فوٹو
عید کا دن تھا مگر زمرودہ بیگم ہر عید کی طرح آج پھر اپنے مرحوم بیٹے کی فوٹو ہاتھ میں لئے آنسو بہا رہی تھی۔ اچانک اسکے بڑے بیٹے نذیرکی نظر اس پر پڑی۔
’’او ہو اماں!!!اسے اس دنیا سے گئے ہوئے آٹھ برس بیت گئے! اور آج عید کا دن ہے۔۔۔ کم از کم آج تو اسکی تصویرصندوقچے میں رکھ کے خوشی مناؤ۔ــ‘‘
’’نذیر! تم میرا درد نہیں سمجھ سکتے۔۔۔ جب والدین کو اپنی اولاد کا جنازہ دیکھنا پڑتا ہے تو اس جہان رنگ و بو کی ہر خوشی ان کیلئے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ۔۔۔ ‘‘
” میں سمجھ سکتا ہوں اماں! مگر اس کی فوٹو کو بار بار دیکھ کر تمہیں بجزرنج و غم کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ ”
’’ بس یہی بات تو تم سمجھ نہیں سکتے۔۔۔‘‘
اچانک فون کی بیل بجی اور نذیر نے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔ خبر سنتے ہی نذیر بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔
ایک برس گزر چکا!!!
آج پھر عید ہے۔
آج زمرودہ بیگم کے ہاتھوں میں تصویر نہیں بلکہ اپنے پھٹے پرانے دوپٹے کا پلو ہے جس سے وہ نذیر کے آنسوں پوچھ رہی ہے اور نذیر کے ہاتھ میں اپنی معصوم بیٹی کی فوٹو ہے جو پچھلی عید کو ایک سڑک حادثے میں دنیا چھوڑ گئی تھی۔
توہین
معلوم نہیں کہ اسکے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی یا بٹھائی گئی تھی کہ بیٹی ہونا ایک توہین آمیز بات ہے۔ لہٰذا برسوں پہلے اس نے اپنی بیٹی کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ آج گزرے ہوئے زمانے نے اس کے دروازے پر پھر سے دستک دی تھی لیکن آج اسے یہ توہین برداشت کرنی پڑ رہی تھی کیونکہ آج اس توہین اور اس کے بیچ اس کا بیٹا کھڑا تھا جو اولاد کو بیٹا یا بیٹی کے پیمانے پر نہیں تولتا تھا بلکہ اس کے لیے اس کی اولاد صرف اس کی اولاد تھی۔
بارانِ رحمت
ــ’’جب زمین پر گناہ بڑھ جاتے ہیں تو آسمان والا رحمتِ باراں روک لیتا اور زمین لہو سے تر ہوتی ہیں۔‘‘
گھر سے نکلتے ہی قاسم کے کانوں میں ایک مجذوب کا یہ جملہ گونجا۔
کئی مہینوں سے شدید گرمی اور خشک سالی نے قاسم کیلئے اس جملے کی معنویت کو چنداں بڑھا دیا تھا۔
کیا واقعی ہمارے گناہ اس قدر بڑھ گئے ہے کہ اب یہ زمین کبھی تر نہیں ہوگی۔ دن بھر یہی خیال اسے بے چین کر تا رہا۔
شام کو جب قاسم اسی رستے گھر لوٹنے لگا تو ہر طرف بھگدڈ مچی تھی۔۔۔ سڑک تر تھی!!!!لیکن تری کا رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرخ تھا۔!!!!